سرفراز صفی کا کالم
ذرا سوچئیے ! جب کوئی ملک تیزی سے ترقی کرتا ہے اور چند ہی سالوں میں سب کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے ،
پوری دنیا میں ہر طرف ’’ میڈ اِن چائینہ ‘‘ کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا تو پھر دنیا بھر کے وڈیرے ضرور کچھ ایسا سوچتے ہیں
جس سے مذکورہ ملک کو تہس نہس کیا جاسکے ، اس کی پراڈکٹس مارکیٹ میں پڑی گل سڑ جائیں اور کوئی بھی انسان خوف کے مارے ہاتھ نہ لگائے ۔
جی ہاں ! اِس طرح تو ہوتا ہے ، اس طرح کے کاموں میں
حالیہ دنوں چین کے ایک وزیر کا ٹویٹ سامنے آیا ہے
جس میں انہوں نے الزام لگایا ہے کہ امریکہ نے ایک وائرس کے ذریعے چین پر حملہ کیا ہے ،
جس کا نام ’’ کورونا ‘‘ ہے ، ایک اور بیان میں چینی وزارت خارجہ یہاں تک کہہ چکی ہے کہ امریکہ کرونا وائرس سے دنیا کو بچانے کی بجائے خوف و ہراس پھیلا رہا ہے اور معاونت کرنے کی بجائے شرارتاناں پنگے بازیوں میں مبتلا ہے ۔
دور کیا جانا ، اگر ہم پاکستان کا ہی مشاہدہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ چند ہی سالوں میں موبائل ، ٹی وی ، ایل ای ڈی ، موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں سمیت ضرورت کی ہر چیز سستے داموں دھڑا دھڑ چین سے امپورٹ ہو رہی ہے ، کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی انڈسٹری پہلے ہی ننھی منی سی تھی جو میڈ ان چائینہ کے نیچے دب کر اپنی موت آپ مر گئی لیکن میڈ ان جاپان ، میڈ ان یو ایس اے اور دیگرغیر ملکی پراڈکٹس کا بھی ہمارے ہاں صفایا ہو گیا ، صرف میڈ ان چائینہ کے علاوہ سب کچھ ملیا میٹ ہو گیا ۔
لیکن صاحب ! یہ صرف پاکستان میں ہی نہیں ہوا ، پوری دنیا دیکھتے ہی دیکھتے چینی انڈسٹری کی لپیٹ میں آگئی ، سستی ترین چینی پراڈکٹس دنیا بھر کی مہنگی انڈسٹری کو کھا گئی اور یہ سب چند دہائیوں کے اندر ہو گیا ۔
کون نہیں جانتا کہ امریکہ اس دنیا کا اصل چودھری ہے ، وہ سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن اپنی چودھراہٹ کسی بھی حالت میں داو پر نہیں لگنے دیتا ، میں اگر غلط نہیں تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ امریکہ تب سے ہی چین کی تباہی کے درپے ہے جب سے چینی مصنوعات پوری دنیا میں دھڑا دھڑ بِک رہی ہیں ، امریکہ کی کل بھی خواہش تھی کہ چین کو کسی طرح قابو میں لایا جائے اور آج بھی امریکہ اسی خواہش پر زندہ ہے ۔
یقینا یہ زمانہ ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرانے کا نہیں ہے ، لڑائیوں اور جنگوں کے طور طریقے بدل چکے ہیں ، جو کام ایٹم بم کرتا ہے اس سے کہیں زیادہ مہلک ایک معمولی وائرس ثابت ہو سکتا ہے اور اسی فارمولے پر سیانے لوگ صدیوں سے کام کر رہے ہیں ۔
آپ نے وہ پنجابی محاورہ تو ضرور سُن رکھا ہوگا کہ ’’ سانپ بھی مر جائے اور سوٹا بھی بچ جائے ‘‘ یقینا دس سال پہلے بنائی گئی امریکی فلم ’’ کونٹیجیئن ‘‘ یہ ثابت کرتی ہے کہ آج کے دور میں سانپ کیسے مارے جاتے ہیں اور اپنی ڈانگ کیسے سلامت رکھی جاتی ہے ۔۔
2011 میں بنائی گئی فلم کونٹیجئین میں صاف صاف دکھا اور بتا دیا گیا تھا کہ چین میں کرونا وائرس آئے گا اور یوں چین کی معشیت تباہ و برباد کر دی جائے گی ، کوئی شخص چینی پراڈکٹس کو ہاتھ نہیں لگائے گا اور چین کا سب کچھ بنا بنایا دھرے کا دھرا رہ جائے گا ۔
اس فلم میں دکھایا گیا ہےکہ ایک امریکی کاروباری خاتون چین جاتی ہے اور وہاں ایک شیف سے ہاتھ ملاتی ہے ، یوں کرونا جیسے ایک موزی وائرس میں مبتلا ہو جاتی ہے جبکہ مذکورہ شیف کو یہ وائرس ایک کاٹے ہوئے سور کو ہاتھ لگانے سے لگا تھا جو کہ ایک چمگادڑ سے متاثر ہوا تھا ۔
امریکی کاروباری خاتون اس کے بعد اپنے گھر واپس آتی ہے، شدید بیمار ہوجاتی ہے اور چند دن بعد ہی ہلاک ہو جاتی ہے ۔ اس کا بیٹا بھی اس وائرس میں مبتلا ہو کر جلد ہی مر جاتا ہے لیکن اس خاتون کا شوہرمضبوط مدافعتی نظام کی بدولت اس بیماری سے بچ نکلتا ہے ۔
کون نہیں جانتا کہ گزشتہ دسمبر میں چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والا کورونا وائرس جانوروں سے انسانوں کو منتقل ہوا تھا جو اب تک پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے اور کرونا کے خوف نے چینی معیشت کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے ۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ چینی معیشت کو ہی برباد کرنے والا وائرس ثابت ہوگا یا امریکہ سمیت یورپ کی بند ہوتی انڈسٹری کو پھر سے زندہ و جاوداں کر دے گا ۔ ؟
جی ہاں صاحب ! بلکل ایسا ہی ہوگا ، چینی مصنوعات پر کرونا وائرس کے اثرات کئی دہائیوں تک رہیں گے ، یہ ’’ پینک ‘‘ کئی سال تک بڑے بڑوں کو چینی مصنوعات کو ہاتھ نہیں لگانے دے گا ، میری بات کا یقین نہیں آتا تو آئیے ، میں ابھی آپ کو کراچی کے نیشنل سٹیڈیم لے جاتا ہوں ، جہاں پی ایس ایل میچ دیکھنے کے لئے ایک بھی تماشائی نہیں ہے لیکن پھر بھی سٹیڈیم کے چاروں طرف سخت سیکیورٹی ہے ۔
ذرا یاد کیجئیے ! کیا یہ سیکیورٹی کرونا وائرس کی روک تھام کے لئے ہے ۔۔۔ ؟ ہر گز نہیں ۔۔۔ یہ سیکیورٹی کئی سالوں سے ہماری مجبوری بن چکی ہے کیونکہ 2009 کی تین مارچ کو لاہور کے لبرٹی چوک میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ ہوا تھا ، 3 مارچ 2009ء کو صبح آٹھ بجکر چالیس منٹ پر 12 دہشت گردوں نے سری لنکن کرکٹ ٹیم کی بس کو قذافی اسٹیڈیم لاہورکے قریب لبرٹی چوک میں دہشتگردی کا نشانہ بنایا تھا ، واضح رہے کہ سری لنکن ٹیم پاکستان کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ کے تیسرے دن کے کھیل کے لیے قذافی اسٹیڈیم آ رہی تھی ، اس حملے میں سری لنکن کرکٹ ٹیم کے چھ ارکان زخمی اور پاکستان پولیس کے پانچ جوان شہید ہوئے تھے ، پولیس کے مطابق جائے وقوعہ سے دستی بم اور راکٹ لانچرز برآمد ہوئے تھے ، اس سچ سے بھی انکار نہیں کہ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم ممبئی میں دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے بھارت کا دورہ منسوخ کرکے پاکستان آئی تھی ۔ لبرٹی چوک کے اس حملے کے بعد سری لنکن کرکٹ ٹیم کو فوری دستیاب پہلی پرواز سے سری لنکا واپس بھیج دیا گیا تھا۔
یہ بھی یاد رکھئیے کہ کئی سال تک ہمارے ملک میں کرکٹ پر ایک طرح کی خود ساختہ پابندی عائد ہو گئی تھی ، کوئی ملک پاکستان میں اپنی ٹیم بھیجنے کو تیار نہیں تھا ، یقینا یہ پینک آج تک موجود ہے ، اس سے خود ہی اندازہ لگا لیجئیے کہ چین میں کرونا پینک کتنی دہائیوں تک رہے گا اور اس کی انڈسٹری کا کیا حشر ہو گا ۔۔۔
صاحبو ! آخر میں عرض ہے تو فقط اتنی کہ آئیے ! بار بار ہاتھ دھوتے ہیں لیکن اس شرط پر کہ کسی سے بغلگیر ہونا ہے اور نہ ہی مصافحہ کرنا ہے
۔۔۔۔۔۔