تحریر ندیم رضا
پاکستان بھر میں بجلی پانی کے بحران اور طویل ترین لوڈشیڈنگ کا شور ہرسو سنائی دے رہا ہے۔ اسی شور
میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں۔
حکومتیں بدلتی رہتی ہیں ایک کے بعد دوسری اور پھر نگراں حکومت لیکن عوام کی حالت بہتر ہونے کے
بجائے مزید خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔
عوام نے سوچا تھا کہ عمران خان کے جانے کے بعد شائد ان کی زندگی میں کچھ سکھ چین آجائے گا۔ سکھ
چین یا راحت تو دور کی بات لیکن اتحادیوں کی حکومت نے ان کی زندگی مزید اجیرن بنادی. اب نگراں
حکمران کی طرف نگاہیں لگوادی گئی ہیں۔
یعنی حکومت بدلنے یا چہرے بدلنے سے کچھ نہیں ہونے جارہا۔ پاکستان کی بدقسمتی سے یہی ریت رہی ہے
کہ ہر جانے والی حکومت نئی حکومت کی ناقص کارکردگی کے سبب مظلوم بن جایا کرتی ہے۔
گوکہ اس نے بھی عوام کے مصائب بڑھانے میں اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہوتی لیکن نئی
حکومت بغیرمنصوبہ بندی خوشی خوشی اقتدار کا ہما سجا لیتی ہے اور عجلت میں فیصلے کرکے مسائل کھڑے
کردیتی ہے۔
حکومتوں کی ناقص کارکردگی پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن اس کا اثر کسی پر نہیں ہو گا اس لیے بے جا
لکھ کر اپنا اور آپ کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ میں اب جو آگے لکھنے جارہا ہوں اس کے ذریعے حکومت
اور عوام کی خصوصی توجہ چاہتا ہوں۔
وقت کا درست استعمال
دنیا کے آگے بڑھنے والے ممالک کس طرح ایک دن کے اپنے چوبیس گھنٹوں کو بہتر انداز سے استعمال کرکے
ترقی کررہے ہیں. ان کے مقابلے میں ان ہی چوبیس گھنٹوں کو ہم یعنی پاکستانی کیسے ضائع کر رہے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک ہوں یا پاکستان کے سوا بیشتر ترقی پزیر ممالک وہ اپنی صبح کا آغاز پانچ بجے سے کرتے
ہیں. شام کو مغرب سے پہلے بیشتر کاروباری مراکز بند کر دیے جاتے ہیں۔
پاکستان کے بڑے شہر کراچی، لاہور، اسلام آباد اور اب تو بڑے شہروں کی دیکھا دیکھی چھوٹے شہروں میں
بھی دکانیں تاخیر سے کھولی جاتی ہیں۔ چھوٹے شہروں کو بھی بڑے شہروں کا رنگ چڑھ گیا ہے۔
اپنے ارد گرد آپ خود ہی مشاہدہ کرلیں اگر میں غلط بیانی سے کام لے رہا ہوں۔ کراچی میں تو دوپہر کو دکانوں
کے شٹر اٹھائے جاتے ہیں۔ جلد دکانیں اور کاروباری مراکز بند ہونے کا تو کوئی تصور ہی نہیں کیاجاسکتا۔
یہ بندہ ناچیز 2013 سے اس انتہائی اہم مسئلہ پر آواز اٹھاتا آرہا ہے لیکن حکومت ہو یا عوام کسی کے سر پر
جوں تک نہیں رینگتی۔ اسی طرح سرکاری دفاتر کا بھی یہی حال ہے۔ بیشتر دفاتر میں دس بجے تک کوئی
نہیں آتا اور اگر آبھی جاتا ہے تو کام شروع نہیں ہوتا۔ پھر ہم کہتے ہیں ملک میں بجلی نہیں پانی نہیں، ڈالر کی
مسلسل گراؤٹ کی وجہ سے پیٹرول بھی مہنگا اور اشیائے ضروریہ یھی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہیں۔
ہم نے اپنی زندگی خود دشوار بنائی ہوئی ہے۔ ہمیں کس نے روکا ہے صبح جلدی اٹھنے اور معمولات زندگی
صبح صادق شروع کرنے سے؟
دن کی روشنی سے استعفادہ ہم کیوں نہیں کرتے؟
رات گئے تک دکانیں اور کاروباری مراکز کیوں کھولتے ہیں؟
کیا دنیا میں کہیں ایسا ہوتا ہے؟
ہم کیوں صبح صادق فجر سے اپنے معمولات زندگی شروع نہیں کرتے؟
شام چھ بجے کیوں ہم کاروباری معاملات ختم نہیں کرتے؟
ہم جلدی گھر جاکے سماجی سرگرمیوں میں بھی شریک ہوسکتے ہیں اور اہل خانہ کو وقت دیں۔ کیا ایسا کرنے سے
ہمیں کسی نے روکا ہے؟
ترقی کیسے کریں؟
دنیا کے بیشتر ممالک میں سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں ہفتہ میں پانچ روز کام ہوتا ہے۔ اب تو بعض
ممالک نے ہفتہ میں تین دن چھٹی دے دی گئی ہے. اس سے کام میں بہتری آتی ہے اور وسائل کی بھی بچت
ہوتی ہے۔
کورونا کے دور میں دنیا کی تمام بڑی کمپنیز نے گھروں سے کام کرنے کا کلچر متعارف کرایا اس پر اب
بھی کئی کمپنیز عملدرآمد کر رہی ہیں۔ پاکستان میں ایسا کیوں ممکن نہیں؟
پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک جسے پہلے ہی توانائی کے مسائل کا سامنا ہے ایسے ہیں ہم بہتر حکمت عملی
کے ذریعے وسائل کو محفوظ کرسکتے ہیں. پیٹرولیم مصنوعات درآمد کرنے پر صرف ہونے والے ڈالرز
بھی ہم بچا سکتے ہیں۔
حکومتوں کی جانب سے عموما کفایت شعاری کی باتیں سنائی دیتی ہیں لیکن وہ صرف باتوں کی حد تک ہی
رہتی ہیں. عملی طور پر کفایت شعاری کہیں دیکھائی نہیں دیتی۔ پنجاب حکومت ہو یا سندھ، بلوچستان ہو یا
خیبرپختونخوا اور وفاقی حکومت سب ہی شاہ خرچیوں پر لگی رہتی ہیں.
اسٹیک ہولڈرز کو چاہیے کہ وہ ہفتہ میں دو چھٹیوں پر غور کریں. جمعہ کو نماز کے بعد چھٹی دے دی جائے
ویسے بھی نماز کے بعد کوئی واپس دفتر جانے کی زحمت نہیں کرتا. ہفتہ کے باقی دنوں میں ملازمین سے
بھرپور کام لیا جائے.
ہفتہ میں دو چھٹیوں سے سڑکوں پہ ٹریفک کم ہونے سے پیٹرول ڈیزل اور دفاتر بند ہونے سے بجلی کی بچت
ہو گی۔
پاکستان خوش قسمتی سے ڈیفالٹ سے تو بچ گیا لیکن معاشی صورت انتہائی ابتر ہو چکی ہے. پاکستانی روپے کی
بے توقیری روکنے میں حکومتی پالیسیاں ناکام ہو چکی ہیں. امریکی ڈالر 300 روپے کا بھی ضرورت کے وقت
نہیں ملتا.
مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ روزآنہ کی بنیاد پر چیزیں مہنگی کی جارہی ہیں. مجسٹریٹ اور ڈی سی کا بنیادی کاموں
میں سے پرائس کنٹرول میں رکھنا اہم ترین کام ہے لیکن انہیں زمینوں سے فرست نہیں اس جانب کیوں توجہ دیں
یہی وجہ ہے کہ دکاندار از خود مہنگائی میں اپنی خواہش کے مطابق اضافہ کرتے رہتے ہیں.
اب بھی وقت ہے ہمیں ملک کا بھی سوچنا ہو گا. صرف جشن آزادی کی تقریبات منانے سے کچھ نہیں ہوگا.
ہمیں یوم آزادی کے عظیم دن خود سے عہد کرنا ہو گا کہ وطن عزیز کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے
اپنا کردار ادا کرنا ہو گا.
جشن یوم آزادی جوش و خروش سے منایا جائے گا
ہمیں آسمان سے نیچے آنا ہو گا صرف حکومت ہی نہیں بلکہ عوام کو بھی افسانوی دنیا سے نکل کر حقیقی
دنیا میں پہنچنا ہوگا۔ ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے اور ایک دوسرے کو بدلنے کا مشورہ دینے کے بجائے
سب سے پہلے ہمیں خود کو بدلنا ہوگا اور کفایت شعاری کا کلچر اوپر سے نیچے تک فروغ دینا ہوگا۔