جماعت اسلامی کراچی کے امیر اور میئر کراچی کے امیدوار حافظ نعیم الرحمن نے بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال اور 9 مئی واقعات
کے بعد زمان پارک لاہور میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان سے ملاقات کر کے سب کر حیران کردیا ہے۔
حافظ نعیم الرحمن کراچی میئر کے لیے تحریک انصاف کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بزرگ سیاستدان نائب امیر جماعت اسلامی
لیاقت بلوچ کو بھی ساتھ لے کر گئے زمان پارک گئے تھے۔
ملکی سیاست پر گہری نگاہ رکھنے والوں کا ماننا ہے کہ حافظ نعیم الرحمن نے ایسی صورت حال میں جب مقتدر حلقے اور پوری
قوم 9 اور 10 مئی واقعات کے بعد تحریک انصاف کے خلاف ہو چکے ہیں ایسے میں عمران خان سے ملاقات کر کے اپنے پیر
خود کلہاڑی پہ مار کے زخمی کر لیے ہیں.
پیپلز پارٹی کراچی کا میئر کیسے بنائے گی؟
یہی جماعت اسلامی عمران خان کے خلاف بیانات دیتی رہی اور اب کراچی کی میئرشپ کے لیے اسی تحریک انصاف کی دہلیز
پر پہنچ گئی. پھر کہتے ہیں وہ نظریہ کی سیاست کرتے ہیں.
ذرائع کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کے اندر بھی اس ملاقات کو لے کر کبھی تنقید کی جارہی ہے. حافظ نعیم الرحمن سے متعلق
کہا جاتا ہے کہ وہ جماعت اسلامی سے کہیں آگے نکل چکے ہیں کراچی میں انہوں نے اپنی تشہیر پر بہت زیادہ توجہ دے رکھی
ہے. جگہ جگہ انہی کی تصاویر لگی ہوئی ہیں. سوشل میڈیا پر مہم میں بھی وہی نمایاں دیکھائی دیتے ہیں.
کراچی میں میئر کے لیے پیپلز پارٹی کے پاس جماعت اسلامی سے زیادہ امیدوار ہیں. تحریک انصاف کے اگر تمام چیئرمینز حافظ
نعیم الرحمن کو ووٹ دیں تو وہ میئر بن سکتے ہیں لیکن موجودہ صورت حال میں ایسا ہوتا قطعی دیکھائی نہیں دیتا.
9 اور 10 مئی کے جلاؤ گھیراؤ واقعات میں تحریک انصاف کے کئی چیئرمینز کے خلاف مقدمات درج ہیں ایسے میں وہ جماعت
اسلامی کو ووٹ دے کر خود کو کسی مشکل میں نہیں ڈالیں گے.
ذرائع کا کہنا ہے عمران خان نے نعیم الرحمن کی حمایت تو کردی ہے لیکن کراچی کے بلدیاتی انتخابات مین کامیاب ہونے والے
تحریک انصاف کے کئی چیئرمینز کسی صورت جماعت اسلامی کو ووٹ نہیں دیں گے.
شہر کراچی کی سیاسی صورت حال پر نظر رکھنے والوں کا ماننا ہے کہ جب بھی ایم کیو ایم نے بلدیاتی اور قومی انتخابات کا
بائی کاٹ کیا ہے تو مذہبی جماعتوں کو کسی حد تک کامیابی مل جاتی ہے.
اس مرتبہ بھی یہی ہوا. ایم کیو ایم کے بائی کاٹ پر جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کو ان کی اپنی توقعات کے برخلاف زیادہ
نشستیں مل گئیں. یہی وجہ ہے کہ حافظ نعیم الرحمن کو بھی غیرمتوقع کامیابی ہضم ہو کہ نہیں دے رہی ہے.
نعیم الرحمن اگر معاملہ فہم اور پیپلز پارٹی کی سیاست کو سمجھتے تو جذبات کے بجائے دانشمندی سے کام لیتے ہوئے میئر
کی نشست پیپلز پارٹی کے دے کر خود ڈپٹی میئر بن جاتے. ایسے میں انہیں فنڈ بھی زیادہ ملتا جس کے اپنے ووٹرز کی خدمت
بھی کر سکتے تھے.
نعیم الرحمن کو نرگسیت کہیں کا نہیں چھوڑے گی اور جماعت اسلامی کو طویل عرصے بعد ملنے والی غیر معمولی کامیابی بھی
رائے گاں جائے گی. جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت کو بھی چاہیے کہ وہ جذبات کے بجائے ہوش سے کام لیں.
ایم کیو ایم کے میئر وسیم اختر کا حشر دیکھ لیں جو پورے چار سال تک بجٹ بجٹ کا رونا روتے رہے لیکن ان کے ہاتھ کچھ بھی
نہ آیا. حافظ نعیم الرحمن نے ماضی قریب سے بھی کچھ نہ سیکھا.
پاکستان کے سارے ہی سیاست دان خودپسندی اور نرگسیت کا شکار ہیں. جہاں عوامی مفاد اور ووٹرز کو عزت دینے کے بجائے
سیاستدان خودپسندی کا شکار ہو جاتے ہیں. طاقت اور عزت جب حد سے زیادہ ایم کیو ایم کو ملی تو انہوں نے نعرہ لگا دیا
“ہمیں منزل نہیں راہ نما چاہیے” بس اسی نعرے کی وجہ سے ایم کیو ایم زوال کا شکار ہوئی لیکن اس کے باوجود جماعت اسلامی
سمیت تمام جماعتوں کا بھی یہی حال ہے.
ہمیں منزل نہیں راہ نما چاہیے والا نعرہ ناجانے مزید کتنی جماعتوں کے قائدین کو گمنامی کے سفر پہ لے جانے والا ہے یہ
عنقریب آنے والا وقت ہی بتائے گا.