کراچی کے بلدیاتی نظام کا 1933سے 2022 تک کا سفر

کراچی
شیئر کریں:

کراچی کے بلدیاتی نظام کی تاریخ غیر منقسم ہندوستان سے شروع ہو تی ہے ۔ انگریزوں نے کراچی میں بلدیاتی نظام کی بنیاد رکھی ،، وقت کے ساتھ ساتھ شہر بڑا ہوا تو نظام میں تبدیلی بھی کی جاتی رہی۔
کراچی بندر گاہ پر تجارتی سر گرمیاں بڑھنا شروع ہوئیں تو 1933 میں انگریز حکمرانوں نے سٹی آف کراچی میونسپل ایکٹ نافذ کیا، برطانوی راج نے دیہی شہری تقسیم کو مقامی سطح پر متعارف کرایا۔ شہری کونسلیں میونسپل سروسز کو پورا کرنے کے لیے بنائی گئی تھیں جبکہ دیہی کونسلوں کو مقامی اشرافیہ کو ہم آہنگ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ابتدائی طور پر میونسپل کارپوریشن میئر، ڈپٹی میئر اور 57 کونسلرز پر مشتمل تھی ، اس نظام میں عملی طور پر ڈپٹی کمشنر انتظامی طور پر با اختیار تھا۔

تشکیل پاکستان کے بعد انیس سو اٹھاون میں جنرل ایوب خان نے بیسک ڈیموکریسی کا نظام متعارف کروایا ۔اس نظام کے تحت غیر جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کروائے گئے ۔۔ منتخب ہونے والے بلدیاتی نمائندے ضلعی بیوروکریسی کے ماتحت کام کرتے تھے ۔ یہ نظام دو اداروں پر مشتمل تھا ۔۔کراچی میونسپل کارپوریشن اور ڈویژنل کونسل ۔انیس سو انتہر میں یہ ںظام ختم کر دیا گیا۔
انیس سو تیہتر میں سندھ حکومت نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ متعارف کروایا ، اس نظام کے تحت کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کا قیام عمل میں آیا ۔۔ انیس سو چیھتر میں ترمیم کے زریعے کراچی کو ڈویژن قرار دیتے ہوئے پانچ اضلاع میں تقسیم کر دیا گیا ۔۔ان اضلاع کو کراچی سینٹرل، کراچی شرقی ، کراچی جنوبی، کراچی ویسٹ، اور کراچی ملیر کا نام دیا گیا ۔۔اس ایکٹ کے زریعے بلدیات میں بیوروکریسی کے کردار کو ختم کر دیا گیا تھا اور براہ راست انتخابات کے ذریعے اراکین کی نمائندگی فراہم کی تھی شاید یہی وجہ تھی کہ اس نظام کے تحت بلدیاتی انتخابات منعقد نہیں ہو سکے۔

انیس سو انتہر میں اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق نے سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس متعارف کروایا ۔اس نظام کے تحت ٹاؤن کمیٹیاں ، میونسپل کمیٹیاں ، میونسپل کارپوریشن اور میٹروپولیٹن کارپوریش کی تشکیل ہوئی ، 1987 میں ترمیم کے زریعے کراچی میں زونل میونسپل کمیٹیاں بنائی گئیں ۔۔ 1992 میں منتخب میئر کا نظام ختم کر دیا گیا اور مقرر کردہ ایڈمنسٹریٹر سسٹم2001 تک نافذ عمل رہا۔
جنوری 2000 میں اس وقت کی فوجی حکومت نے لوکل گورنمنٹ آرڈینس پاکستان نافد العمل کیا گیا۔ ا س نظام کے تحت کراچی میں سٹی ڈسٹرکٹ گورمنٹ وجود میں آئی۔

سی ڈی جی کے کو اٹھارہ ٹاؤنز میں تقسیم کیا گیا تھا اس نظام کے تحت میئر کراچی کو انتظامی حوالے سے فیصلے کرنے کا اختیار دیا گیا ۔پہلی بار ضلعی بیوروکریسی منتخب نمائندوں کے سامنے جوابدہ تھی۔اس بلدیاتی نظام میں ٹاؤن اور یو سی کی سطح پر منتخب میونسپل انتظامیہ پانی، صفائی، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اور سڑکوں، پارکوں، اسٹریٹ لائٹس کی تعمیر و مرمت اور ٹریفک انجینئرنگ کی منصوبہ بندی کر سکتی تھی 14 فروری 2010 کو لوکل گورنمنٹ آرڈیننس اور حکومت کراچی کو ختم کر دیا۔

2013 میں چھ سال کے وقفے کے بعد سپریم کورٹ کے حکم پر سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ متعارف کروایا گیا ۔۔ سپریم کورٹ کے حکم پر 2015 میں ایس ایل جی اے کے تحت کراچی میں بلدیاتی انتخابات کروائے گئے جس کے نتیجے میں میئر اور ڈپٹی میئر اور شہر کے چھ اضلاع میں چیئرمین منتخب ہوئے۔
ایس ایل جی اے میں متعدد بار ترامیم کی گئیں جس کے بعد کراچی میں نئی بلدیاتی حد بندی کی گئی ہے۔
سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات اسی نظام کے تحت ہو رہے ہیں۔


شیئر کریں: