کراچی کا دبنگ پولیس افسر ذیشان کاظمی

تحریر فیاض خان
کراچی کے دبنگ پویس آفیسر ذیشان کاظمی کے غیرمعمولی عروج و زوال کی تلسماتی کہانی.
“موت میرا پیچھا کررہی ہے اور میرا مقدر بھی گولی ہی ہوگی”
یہ الفاظ تھے کراچی آپریش کے ایک مرکزی کردار پولیس انسپکٹر ذیشان کاظمی کے جنہوں نے کراچی پولیس میں اپنی تھانیداری
کے ایک دہائی سے بھی کم عرصے میں غیرمعمولی عروج اور زوال دیکھے۔

کچرا کنڈی اور ذیشان کاظمی

انکاؤنٹر اسپیشلٹ یعنی پولیس مقابلوں کے ماہر پولیس افسر ذیشان کاظمی کراچی آپریشن 1995 کے دوران پولیس مقابلوں میں جرائم
پیشہ افراد کے علاوہ مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد کو ہلاک کرنے کی پے در پے کارروائیوں کے باعث
کراچی میں دہشت کی علامت بنا۔
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے صاحبزادے اور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کو قتل کرنے کے کیس
میں عدالت سے مفرور ہونے کے بعد اسے پولیس کے ملازمت سے بھی برخواست کردیا گیا۔ اسی مفروری کے دوران 12 اکتوبر
2003 کو کراچی کے فیروزآباد تھانے کی حدود میں ایک کچراکنڈی سے ذیشان کاظمی کی تشدد زدہ لاش ملی جو گولیوں سے چھلنی تھی۔
اس کے ساتھ ہی اس دبنگ پولیس افسر کا باب بھی افسوسناک انداز میں ہمیشہ کیلئے بند ہوگیا۔

متنازعہ افسر کیوں کہتے ہیں؟

ذیشان کاظمی کو ایک متنازعہ پولیس افسر بھی کہا جاتا ہے. ان پر ایم کیو ایم اور دوسری سیاسی تنظیمیں اپنے کارکنوں کی ماورائے
عدالت پولیس مقابلوں میں ہلاکت کے الزامات بھی عائد کرتے رہی ہیں۔ جس دور میں پولیس والوں کو چن چن کر ٹارگٹ کلنگ
میں مارا جارہا تھا. روزانہ شہر کے مختلف علاقوں سے پولیس اہلکاروں کی تشدد زدہ بوری بند لاشیں مل رہی تھیں ۔
کراچی میں قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا ۔ اس وقت ذیشان کاظمی اور اس کے چند پولیس افسر ساتھیوں نے اپنی جان کی
پرواہ نہ کرتے ہوئے اس دہشت گردی کا جوانمردی سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا . 1996ء میں اس وقت کی حکومت کی تائید
اور بھرپور مدد حاصل تھی. ڈی آئی جی کراچی شعیب سڈل کی زبردست حکمت عملی سے دہشت گروں کیلئے کراچی کی زمین تنگ
کردی گئی اور نامی گرامی دھشت گرد روزانہ پولیس مقابلوں میں مارے جانے لگے جس سے شہر میں امن و امان قائم ہوا ( مگر پھر
پولیس کا یہ کامیاب آپریشن سیاست کی نذر ہوگیا)۔
ان چند سرپھرے پولیس افسران نے پولیس والوں کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث مختلف سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکنے والے
درجنوں جرائم پیشہ افراد کو پولیس مقابلوں میں” پار” لگانے کی حکمتِ عملی اپنائی جس سے ان پولیس افسران کو نہ صرف کراچی
پولیس کی تاریخ اور آپریشن میں اہم باب کی حیثیت ملی بلکہ وہ پوری سندھ پولیس کے ہیرو بن گئے۔
ان میں سب سے نمایاں نام ذیشان کاظمی کا تھا جو اپنی دلیری اور رسک لینے کی خوبی کی وجہ سے اب مختلف سیکیورٹی ایجنسیز
اور خفیہ اداروں کی آنکھ کا تارہ بن چکاتھا۔ اس وقت کے وزیرِداخلہ سے براہ راست میٹنگز اور آشیرواد کی وجہ سےجہاں چاہتا اور
جس تھانے میں چاہتا اپنی تعیناتی کروا لیتا تھا. اپنے قریبی دوستوں اور ساتھیوں کو بھی ان کے من پسند تھانوں میں تعیناتی کروا
دیتا تھا اب اس کے کہنے پر کراچی میں ایس پیز، ڈی ایس پی اور ایس ایچ اوز کی پوسٹنگ بہت معمولی بات تھی۔
اس کے علاقے میں کسی جرائم پیشہ کی مجال نہیں تھی جو پر بھی مارسکتا. اس کی دہشت اور دبدبے کا یہ عالم تھا کہ اسنے
مختلف تھاوں میں اپنی تعیناتی کے دوران اپنے علاقے میں نوجوانوں کو جینز کی پتلون پہننے پر پابندی عائد کردی تھی اوراس کی
دہشت کی وجہ سے اس پر کوئی چوں چراں بھی نہیں ہوتا تھا۔
بہت سے لوگوں کا کہنا ہےاگر اس وقت کے بدترین حالات کو دیکھا جائے جب پولیس اہلکاروں سمیت عام معصوم لوگوں کی
ٹارگٹ کلنگ ہونے کے علاوہ بوری بند لاشیں ملنا معمول بن چکاتھا . اس سے نمٹنے کیلئے ان پولیس افسران نے جو بھی کیا
وہ ہی اس وقت کا سب سے بہترین علاج تھا۔ کچھ لوگ اس وقت کو انسانی حقوق کی پامالی کے بد ترین دور سے تشبیہ دیتے
ہوئے کہتے ہیں کہ اس دو طرفہ پرتشدد لڑائی میں کراچی آپریشن میں متحرک تمام پولیس افسران جائز ناجائز کی حدود کا تعین کرنا چھوڑ
چکے تھے.

نشیب و فراز

سندھ ریزرو فورس میں بھرتی ہونے والا ذیشان کاظمی دورانِ ملازمت کئی مرتبہ ملازمت سے معطل بھی ہوا اور اپنے اثر ورسوخ
سے بحال بھی ہوتا رہا ۔ مخالفین اس پرکروڑوں کی جائیداد اور ناجائز دولت کا مالک ہو نے کے الزامات بھی لگاتے رہے لیکن
کبھی کوئی الزام ثابت نہ ہوسکا۔
خطروں سے کھیلنے والے اس پولیس افسر پر متعدد مرتبہ قاتلانہ حملے بھی کئے گئے لیکن قسمت کا دھنی تھا ہمیشہ بچ نکلتا تھا لیکن
اس بات کی گواہی اس کے قریبی ساتھی دیتے ہیں کہ وہ ہمیشہ کہتا تھا ” میری موت میرا پیچھا کررہی ہے اور میرا مقدر بھی گولی ہی
ہوگی ” . سعودآباد تھانے کی تعیناتی کے دوران ایک سیاسی پارٹی سے الگ ہونے والے دھڑے کا رہنماء جو اس وقت مختلف
سیکیورٹی ایجنسیز کے بے حد قریب تصور کئے جاتا تھا اس سے تلخ کلامی کے بعد ذیشان کاظمی نے اس رہنماء کی درگت بنا ڈالی
جس کا بدلہ لینے کے لیے اس گروپ کے مسلح لوگوں نے گھات لگاکر اس کی گاڑی پر فائرنگ کی لیکن اس مرتبہ بھی مقدر
کا سکندر ثابت ہوا. ہمیشہ کی طرح بچ نکلا اور پھر جوابی طور پر اس نے اس سیاسی گروپ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی.
پولیس مقابلے میں مارے جانے کے خوف سے وہ رہنماء ایک حساس ادارے کے افسر کے قدموں سے اس وقت تک
اٹھنے کیلئے تیار نہیں تھا جب تک اس کی جان بخشی نہ کروائی جائے اور پھر بڑی مشکلوں کے بعد ذیشان کاظمی سے اس کی
معافی ہوئی اور اس نے سکھ کا سانس لیا۔

100 سے زائد ہلاکتوں‌کا الزام

مختلف سیاسی پارٹیاں ذیشان کاظمی پر کراچی آپریشن کے دوران 100 سے زیادہ افراد کو ہلاک کرنے کے الزاما عائد کرتی رہی ہیں۔
وہ تقریبآ روزانہ ہی اپنے خلاف جعلی پولیس مقابلوں کے الزامات کے تحت پٹیشنز پر عدالتوں میں پیش ہوتا رہتا. اس پر متعدد
پرچے بھی درج ہوئے. درجنوں جوڈیشنل انکوئریاں اسکے علاوہ تھیں۔

ذیشان کاظمی کا ستارہ عروج پر تھا اور اس کے لئے سب زبردست چل رہا تھا لیکن ہر عروج کو زوال ہے اور یہاں بھی اوپر والے
نے کچھ ایسا ہی لکھا تھا ۔ ذیشان کاظمی نے عیدگاہ کے علاقے سے مرتضیٰ بھٹو کے قریبی ساتھی علی سنارا کو گرفتار کرلیا جو کہ اس
وقت کے حساب سے بہت بڑی کامیابی تھی. علی سنارا دہشت گرد تنظیم الذولفقار کا کمانڈر اور بم دھماکوں سمیت قتل کی لاتعداد
وارداتوں میں مطلوب تھا. اس کے بارے میں شبہ تھا کہ وہ اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف زرداری
کے قتل کی سازش کررہا ہے ۔
ذیشان کاظمی علی سنارا کو پکڑ کر بہت خوش تھا لیکن قسمت کو کچھ اورہی منظور تھا اور یہی کیس اس کے زوال کا سبب بنا۔ مرتضی
بھٹو علی سنارا کی گرفتاری پر سخت مشتعل تھا اور اس نے غصے میں اپنے مسلح ساتھیوں کے ساتھ علی سنارا کو ڈھونڈنے اور چھڑانے
کیلئے مختلف تھانوں اور سی آئی اے سینٹر پر دھاوا بولنے والی پالیسی اپنائی. ذیشان کاظمی نے علی سنارا کو گرفتار کرکے کسی نامعلوم
مقام پر چھپادیاتھا۔
قصہ مختصر اسی اثناء میں مرتضیٰ بھٹو کی پولیس مقابلے میں ستر کلفٹن کے سامنے ہلاکت کے بعد اس وقت کے صدر فاروق لغاری
نے پیپلز پارٹی کی حکومت برخاست کردی . مرتضیٰ بھٹو قتل کیس میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے شوھر آصف زرداری اور
اس وقت کراچی کے اہم عہدوں پر فائز تمام پولیس افسران کو نامزد ملزم بنایا گیا۔ بدقسمتی سے ذیشان کاظمی بھی اس ہائی پروفائل
مقدمہ میں ملزم قرار پایا ( ذیشان کاظمی نے ہمیشہ اس مقدمہ میں ملوث ہونے سے انکار کیا)۔
ذیشان کاظمی کے علاوہ تمام نامزد ملزمان گرفتار کرلئے گئے. ڈی آئی جی شعیب سڈل کو عدالت سے شک کا فائدہ ملا اور وہ ملزم
ہونے کے باوجود ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ ذیشان کاظمی نے عدالت میں سامنا کرنے کے بجائے روپوشی
اختیار کرلی اور جب تک زندگی رہی عدالت میں پیش نہ ہوا۔ اسی بناء پر ملازمت بھی جاتی رہی۔ دورانِ روپوشی اسنے بہت برے
حالات کا سامنا کیا.
سیکیورٹی فورسز اور خفیہ اداروں کی آنکھوں کا تارہ کہلانے والا پویس افسر قانون سے چھپنے کے ساتھ ساتھ اپنے لاتعداد دشمنوں سے بچنے
کیلئے مارا مارا پھر رہاتھا ۔ جن دوستوں پر زندگی بھر اس نے احسانات کئے تھے وہ اب اس کا فون بھی نہیں اٹھانا گوارا نہیں کرتے
تھے ۔ اپنے اچھے وقت میں کچھ لوگوں کے ساتھ بزنس انوسٹمنٹ کی تھی وہ بھی لوگ ہڑپ کر گئےکیونکہ ان کو یقین تھا اتنے بڑے
کیس سے اب اس کی جان نہیں چھٹنے والی.

شعیب خان ڈان

ذیشان کاظمی اپنی ملازمت کے شروع کے دنوں کے دوست اور بدنام زمانہ ڈان شعیب خان سے روپوشی کے دنوں میں بھی رابطے
میں تھا اور اس کو معلوم تھا کہ شعیب خان اب ایک بہت بڑا آدمی بن چکا ہے جس کے تعلقات سیاستدان، فوج و پولیس کے سینئر
افسران ، ججز اور ہر شعبہ ہائے زندگی کی اہم شخصیات سے تھا۔ شعیب خان ہمیشہ اس کا مسئلہ حل کروانے میں اس کو مدد کرنے کا یقین
دلاتا رہتا تھا ( جو کہ اس کے بس کی بات ہی نہیں تھی) ۔

شعیب خان کو جو لوگ جانتے ہیں انہیں اچھی طرح علم ہے کہ اس کی شہرت شروع سے ” یار مار” کی رہی تھی. اس نے ہمیشہ اپنے
قریبی دوستوں کو دہوکے سے ٹھکانے لگایا جس کی مثال پیپلز پارٹی کے رہنماء منور سہروردی کی ٹارگٹ کلنگ اور بھولو قتل کیس ہے ۔
شعیب خان کے تعلقات مختلف جرائم پیشہ افراد سے تھے اور اس کی دوستی شہید بھٹو گروپ کے علی سنارا اور نیاز ٹالانی کے ساتھ بھی
تھی ۔ علی سنارا کے علم میں جب یہ بات آئی کہ شعیب خان کی ذیشان کاظمی کے ساتھ دوستی ہے تو اس نے پلاننگ کی اور شعیب
خان کو اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ کسی بہانے ذیشان کاظمی کو بلا لے تاکہ وہ اپنا بدلہ لے سکیں. وہ سمجھتا تھا کہ ذیشان کاظمی بھی
مرتضیٰ بھٹو کی موت کا ذمہ دار ہے ۔ شعیب خان نے اس بار بھی یار مار کاکام کیا اور اس نے ذیشان کاظمی کواپنے گیسٹ ہاؤس پر
کھانے پر مدعو کرلیا ۔ ذیشان کاظمی بہت زیادہ احتیاط کرنے والا شخص تھا اور گنے چنے لوگوں پر بھروسہ کرتا تھا جن میں سے ایک
شعیب خان بھی تھا۔

دھوکے سے شیر کا شکار

گیسٹ ہاؤس پر اس رات پہلے سے علی سنارا کی ٹیم ویٹرز اور باورچی کے روپ میں موجود تھی ۔ بیسمنٹ میں بنے ہال میں شعیب
خان نے دھوکے سے ذیشان کو چائے میں بے ہوشی کی دوا ملا کر دی ۔ بے ہوشی کے بعد اسے غیر مسلح کرکے ہتھکڑی لگا کر
ہوش میں لایا گیا تاکہ اس کی اینٹیروگیشن کی جاسکے ۔ جب ذیشان کو ہوش آیا تو اپنے ہاتھوں میں ہتھکڑی اور سامنے کھڑے مسلح
افراد دیکھ کر ہی اسے سمجھ آ گئی کہ اس کے ساتھ بھی شعیب خان نے وہی کیا جو اس سے پہلے چند دوسرےدوستوں کے ساتھ کر
چکا تھا۔ مسلح افراداس پر تشدد کرتے ہوئے صرف مرتضیٰ بھٹو قتل کے حوالے سے معلومات حاصل کرنا چاھ رہے تھے ۔ ذیشان
کاظمی کی ساری زندگی اسی قسم کے کاموں میں گذری تھی وہ سمجھ گیا کہ موت کا وقت آپہنچا ہے کیوں نہ لڑ کر جان دی جائے اس
نے سخت مزاحمت شروع کردی جو کہ اس کے دشمنوں کے لئے غیرمتو قع بات تھی. اسی دوران اس کے ہاتھوں میں لگی
چینی ساختہ ہتھکڑی ٹوٹ گئی. جس پر نیاز ٹالانی اور منظور نامی ملزمان نے اس پر فائرنگ کردی جس سے ذیشان کی موقع پر ہی
موت واقع ہوگئی۔ شعیب خان نے اس کی موت کا رخ ایک سیاسی پارٹی کی طرف موڑنے کیلئے لاش بوری میں ڈلواکر فیروزآباد
کے علاقے میں کچرا کونڈی میں پھنکوادی . کافی عرصے تک سب یہی سمجھتے رہے کہ اس قتل کے پیچھے ایک سیاسی جماعت
کا ہاتھ ہے.

آگے چل کر سب کے علم میں ہے گرفتاری کے بعد کیسے پراسرار انداز میں جیل میں بند شعیب خان موت سے ہمکنار ہوا.
علی سنارا کھارادر کے علاقے میں مسلح افراد کی گولیوں کا نشانہ بنا۔ بقیہ ملزمان کو بھی کراچی پولیس نے طویل عرصے کے بعد
گرفتار کرکے کیفرِکردار تک پہنچایا۔

ذیشان کاظمی کی زندگی کے اتار چڑھاؤ ، عروج و زوال پر کسی بالی وڈ مووی کا گمان ہوتا ہے اور کچھ لوگ اسے ایک متنازعہ اور سفاک
پولیس افسر کہتے ہیں . اس کے پولیس مقابلوں کے مستند ہونے پر شک کی انگلیاں اٹھاتے ہیں. اس کے انجام کو قدرت کا
قانون قرار دیتے ہیں. پولیس ڈپارٹمنٹ میں اسے ایک بہادر ، نڈر اور خیر خواہ ایس ایچ او کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔