تحریر سید فخرکاکا خیل
سیاست آہستہ آہستہ پیچھے ہٹتی جا رہی ہے۔ حالیہ مہنگائی، بجلی کے بلوں اورپٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف جس طرح لوگ نکلے لیکن میدان میں سیاسی لیڈرشپ نہیں تھی اس سے ایک عجیب طرح کی بے یقینی نے جنم لیا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب دو روپے لیٹر پٹرول بھی بڑھتا تو شہروں میں پہیہ جام ہڑتال کے باعث سرکار عوام کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی۔ کوئی سیاسی گرفتاری ہوتی تو ملک بھر میں ہنگامی صورتحال نافذ ہو جاتی۔ لیکن اب ایسے لگتا ہے کہ سیاستدان تھک چکے ہیں جب کہ عوام بھی اس طرح ان کی آواز پر باہر نہیں نکلتی۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کتنے دنوں سے اٹک جیل میں قید ہیں لیکن مجال ہے کہ ان کے بڑے بڑے رہنما ٹوئٹر سے باہر احتجاجاً سڑکوں پر نظر آئے ہوں۔ حالانکہ کچھ زیادہ پرانی بات نہیں کہ “عمران خان ہماری ریڈلائن” کے ٹرینڈ بنتے رہتے اور ایک دن تو پورے ملک میں حساس مقامات پر اس پارٹی کے کارکنوں نے دھاوا بولا۔ اس سے لگتا ہے کہ خیبرپختونخوا میں 2013ء کے انتخابات کو پاکستان تحریک انصاف کے حوالہ کیا گیا۔ اس کے بعد 2019ء میں ان کو خیبرہختونخوا میں دوتہائی اکثریت دلائی گئ اور اب جب ان کا کردار ختم ہو گیا ہے یونین کونسل کے انتخابات میں کامیابی کو بھی ان کی ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کہ گویا کوئی انہونی ہوئی ہو۔ 2013ء میں ان کے منتخب وزیراعلی اور 2019ء میں ان کے منتخب وزیراعلی دونوں تحریک انصاف نا صرف چھوڑ چکے ہیں بلکہ دعویٰ کرتے ہیں کہ صوبے میں تحریک انصاف کا وجود ان کی ہی بدولت تھا اور اب اگر وہ نہیں تو تحریک انصاف نہیں رہے گی۔ یہ تو خیر وقت بتائے گا کیونکہ 2019ء میں ضمنی انتخابات میں جب ایک وزیر اعلیٰ تھا اور دوسرا وزیردفاع جب صوبے اور مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت تھی خود سابق وزیر اعلیٰ اور وزیردفاع پرویزخٹک کے اپنے ضلع میں ن لیگ نے ان کو شکست سے دوچار کیا۔
لیکن کیا اس وقت سیاست ہی بڑا مسئلہ ہے؟ شاید اب بھی اقتدار کے حوس میں مبتلاء سیاستدان عوامی نبض کو جاننے میں ناکام ہیں۔ لوگ مہنگائی کے ہاتھوں خودکشیاں کر رہے ہیں جب کہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے لیئے گھر کی اشیاء بیچی جا رہی ہیں۔ پراپرٹی کا کاروبار ٹھپ پڑا ہے اور مارکیٹوں کی مارکیٹیں خالی پڑی ہیں۔ لوگوں کی قوت خرید نا ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ ایک انجانے خوف نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ لیکن یہ تو وہ صورتحال ہے جس سے ملک کا بچہ بچہ واقف ہے۔ آخر اس کا حل کیا ہے؟ اس سلسلہ میں سب سے اہم چیز تو معاشی استحکام ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ دوست ممالک اب مزید امداد وقرضہ دینے کے موڈ میں نہیں ہیں اور اگر ڈالرز کی یہ خشک سالی برقرار رہی تو اب ملکی سلامتی کو خطرات درپیش ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں گورننس کا مسئلہ ہی درپیش ہے۔ نگران حکومتی کی جگہ اگر مقامی حکومتوں کے نظام کو پوری روح کے ساتھ نافذ کیا جائے تو ہمارے کافی سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اس میں صفائی سے لے کر صحت، تعلیم، مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی تک کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ بیوروکریسی کو منتخب عوامی لگام کی اتنی ضرورت پہلے کبھی نہیں تھی جتنی اب ہے۔ جدید دنیا میں ترقیافتہ ممالک تک بحرانوں اور امن وامان پر قابو پانے کے لیئے مقامی حکومتوں کا استعمال کرتے ہیں اور ہمارے ہاں تو یہ ان سے بھی زیادہ مؤثر ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ قومی سطح پر اٹھارویں ترمیم پر بحث ہونی چاہیئے۔ صوبوں کو فوری طور پر ان کی ذمہ داریوں کا احساس کرانا چاہیئے لیکن اس سے پہلے ان کے حقوق ان کو دینے چاہیئں۔ جب صوبوں کا اختیار اپنے وسائل پر ہو گا تو ان وسائل کو بھرپور طریقے سے استعمال میں لانے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ اللہ تعالی نے وطن عزیز کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے لیکن قومی سمت نا ہونے کے باعث ہر کوئی دوسرے کا کام کر رہا اور اپنا کام کرنے کی استعداد وہ نہیں رکھتا۔ اگر تو صوبوں کو اختیار مل جاتا ہے تو وفاق پر دباؤ کم ہو جائے گا اور وفاق بجائے اس کے کہ بجلی کے معاملات، سڑکوں کے معاملات، اندرونی امن وامان کے معاملات پر وقت ضائع کرے وہ وطن عزیز کو درپیش بڑے بڑے ایشوز جیسے خارجہ پالیسی اور دفاع کے معاملات پر توجہ مرکوز رکھے گا۔ صرف اور صرف اٹھارویں ترمیم ہی میں وہ حل پوشیدہ ہے جو اس ملک کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ گو کہ ماضی میں اس کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس وقت جو قیادت بااختیار ہے وہ حقیقی معنوں میں سنجیدگی سے اس ملک کے مسائل کو سمجھنے اور اس کو حل کرنے کے لیئے تگ ودو کر رہی ہے۔ اس لیئے یہ صحیح وقت ہے کہ صوبوں کو وسائل پر اختیار دے کر مقامی حکومتوں کو توانا کیا جائے۔ اس سے وفاق خود بھی محفوظ و مضبوط رہے گا اور عوامی مسائل کے حل کی طرف عوام میں اعتماد بڑھے گا۔گو کہ بندوبست کچھ عجیب سا نظر آئے گا لیکن ہمارے پڑوس میں ڈیڑھ ارب ابادی والے ملک نے خود کو اسی نظام سے سنبھالا ہوا ہے۔ انہوں نے پنچائیت تک کے مقامی انتظام کو آئینی تحفظ دیا ہوا ہے۔ اس طرح ہر صوبے کو اختیارات دے رکھے ہیں۔ بلکہ یہ عمل تو انہوں نے برطانوی ہند یعنی اپنے قیام سے بھی پہلے 1935 کے ایکٹ کے تحت شروع کیا تھا۔
اب ہمارے سیاسی قائدین اور طاقتور ادارے ملکی تاریخ کے اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ جہاں فیصلوں اور تجربوں سے زیادہ عملی اقدام کی ضرورت ہے۔ کمال کی بات یہ کہ مقامی حکومتوں کا تجربہ بھی کیا گیا ہے اور اس کو کامیاب بھی قرار دیا گیا لیکن چونکہ کامیاب ہوا اس لیئے اس کے پر کاٹے گئے کہ ہمارے سیاستدان اور بیوروکریسی کو آمریت کی ایسی عادت پڑ چکی ہے کہ یہ جمہور کی طاقت کو ہمیشہ ایک خطرے کے طور پر دیکھتے آئے ہیں۔ سیاستدانوں میں یہ رحجان تو وقتاً فوقتاً آمرانہ دور سے جنم لینے لگا تھا لیکن بیوروکریسی آج بھی فرنگی راج کی راہ طر چلتے ہوئے خود کو تاج برطانیہ کے بابو تصور کرتے ہیں اور عوام سے ہاتھ ملانے کو بھی خلاف آداب سمجھتے ہیں۔
اس لیئے اگر ملک کے سنجیدہ اور صاحب اختیار حلقے اس ملک کو صحیح راستے پر ڈالنا چاہتے ہیں تو سابق تجربوں کو آزمانے ہی بجائے اس سے سیکھ کر آگے بڑھیں اور اقتصادی مسائل کے ساتھ ساتھ گورننس کے مسائل پر بھی توجہ دیں۔
پاکستان میں سیاست گھم ہو گئی؟
