ٹیکنوکریٹ حکومت کا پرانا خواب

شیئر کریں:

سیدفخرکاکاخیل
پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین کے پلیٹ فارم سے پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ پختونخوا پرویزخٹک نے نوشہرہ میں طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ اس موقعہ پر سابق وزیر اعلی محمود خان بھی سٹیج پر موجود رہے۔ دیکھا جائے تو دو وزرائے اعلیٰ کے لیئے صوبے میں اتنی تعداد اکھٹی کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیئے لیکن آج کل کے دور میں جب
شدید گرمی میں عوام مہنگائی سے بدحال ہو چکے ہیں یہ اجتماع ایک کامیاب اجتماع تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ملک میں انتخابات کی فضا بن چکی ہے؟ مرکز میں نگران سیٹ اپ کی آمد ہو چکی ہے۔ لیکن اس بار ٹیکنوکریٹ کی یہ کابینہ نوے دن والی نظر تو نہیں آتی۔ یہ ٹیکنوکریٹ کی حکومت اسٹیبلشمنٹ کا پرانا خواب تھا اور ہم کئی سالوں سے سن رہے تھے کہ ملک کے مسائل کا واحد حل ٹیکنوکریٹ کی حکومت ہے کہ کچھ سالوں کے لیئے پوری طاقت کے ساتھ حکومت ان کے حوالے کی جائے اور وہ ملک کو سدھار کے راستے پر ڈالے۔ جہاں وفاق میں یہ صورتحال ہے وہاں خیبرپختونخوا میں تو ایسے لگتا ہے کہ کسی کو کوئی فکر نہیں ہے۔ یہاں تو کرسی پر بیٹھے بیوروکریث بھی صوبہ چلانے کے اہل نہیں رہے۔ ایک نگران کابینہ کو فارغ کیا گیا تو دوسری نگران کابینہ میں کئی چہرے دوبارہ لائے گئے۔ چلو اچھا ہے اسٹیبلشمنٹ کو یہ اندازہ ہوا کہ جو بھی ہیں ان کے پاس اب یہی ہیں۔ وہ دوسو ماہرین تو ویسے بھی ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ صوبے میں دس سالہ حکمرانی اور بدترین کرپشن کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب خود اسٹیبلشمنٹ کی لائی گئی جماعت تحریک انصاف سے آپ بریت کا اعلان کردیں تو آپ کو سو خون معاف ہیں۔ بلکہ آپ کو دوبارہ ملک لوٹنے والی ٹیم میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ کیکر کا پودہ بو کر آم کی توقع رکھنا اسے کہتے ہیں۔ کئی پرانے بیوروکریٹس اور ٹیکنوکریٹس سے بات ہوئی تو وہ پہلے تو زیرلب مسکرائے اور پھر کہا کہ معاملات ٹھیک کرنے کے لیئے اختیارات کا ہونا ضروری ہے۔ پھر یہ کہ گزشتہ دس سالوں میں صوبے کو تحریک انصاف کے حوالہ جس طرح کیا گیا اور جس طرح تمام اختیارات بلکہ پشت پناہی تک ان کو حاصل رہی یہاں تک کہ اعلیٰ عدلیہ تک ان کے سامنے بے بس تھی سب کچھ ہوا اور اب وہ چھپتے پھر رہے ہیں۔ پہلے کام کرو اور پھر نیب اور عدالتوں کی پیشیاں بھگتو تو ایسے میں کس کا دماغ خراب ہوگا کہ وہ آگے بڑھ کر دوسروں کا بوجھ اٹھائیں۔ یہ بات بھی درست ہے۔ صوبائی کابینہ میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی کی دوسری اننگز کھیل رہے ہیں۔ ان کے پہلے اننگ کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ ان کا دوسرا اننگ کیسا ہوگا۔
صوبے میں بدامنی اور لاقانونیت اپنی انتہا پر ہے۔ تحفظ فراہم کرنے والی پولیس تک تحفظ کی تلاش میں ہے۔سنا ہے کہ ان کو کہہ دیا گیا ہے کہ وہ ڈیوٹی پر آنے اور ڈیوٹی سے واپسی پر سادہ کپڑے زیب تن رکھیں تاکہ نشانے پر نا ہوں۔ قبائلی علاقوں میں آئے روز سیکیورٹی فورسز، پولیس اور مشران کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اغواء کار بھی اب ڈالرز میں ڈیمانڈ کرنے لگے ہیں۔ پی ٹی ایم کی شکل میں نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد ریاست سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ اس ساری صورتحال کی نشاندہی عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما سردار حسین بابک وقتاً فوقتاً کرتے رہے ہیں اور ان کی تقاریر میں یہ فرسٹریشن پالیسی ساز اداروں کو نظر آ جانی چاہیئے تھی تاہم ایسا نہیں ہوا۔ اب اس حوالہ سے بھی پاپولرازم کا سامنا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پی ٹی ایم میں پی ٹی آئی کے نوجوانوں کی اکثریت موجود تھی۔ جب پارلیمانی جماعتیں کمزور ہوئیں یا کر دی گئیں تو اب پاپولرازم کے لیئے میدان کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔پاپولرازم کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ اس میں جارحیت پنپتی ہے۔ گرماگرم بیانات اس کا خاصہ ہوتے ہیں۔ اس لیئے پی ٹی ایم کے حالیہ مارچ اور اجتماع میں خاصی جارحیت سامنے آئی۔ سوشل میڈیا پر بحث بھی خوب ہوئی لیکن دوسری جانب زمینی حقائق ہیں کہ بدلنے کا نام ہی نہیں کے رہے ہیں۔
عوام کو ریلیف کا امکان دور دور تک نظر نہیں آتا۔ کمرتوڑ مہنگائی تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ اس فرسٹریشن میں ظاہری بات ہے کہ عوامی لہر کو جس نے بھی جس طرف ابھارا اسے کشیدگی کی طرف لے جا سکتا ہے۔
ہم نے ان صفحات پر بارہا ذکر کیا کہ مقامی حکومتوں کی شکل میں ریاست کے پاس عوامی گورننس کا بہترین نیٹ ورک موجود ہے۔ اصل مسئلہ گورننس کا تھا اور وہ اب بھی ہے۔ اگر پالیسی ساز ایک لمحے کے لیئے رک کر سوچیں کہ کیوں نا نگران حکومتوں، انتخابات، پی ٹی آئی کا توڑ اور اسمبلیوں پر توجہ دینے کی بجائے مقامی حکومتوں کو خودمختار بنائیں اور اضلاع کی سطح پر پوری طاقت کے ساتھ عوام کے مسائل حل کریں یا کم ازکم عوام کے ساتھ جڑ جائیں تو ریاست کا ایک بہت بڑا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ اس سلسلہ میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حکومت اور سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے مقاصد کے لیئے قانون سازی تو منٹوں اور سیکنڈوں میں کر دی لیکن خیبرپختونخوامیں جس طرح ضلع حکومتوں کو تحصیل کی سطح پر لا کر اضلاع کی بیوروکریسی کے ماتحت کر دیا ہے یہ بیوروکریسی کی پرانی شہنشایت کا احیاء ہے۔ ضرورت اس قانون کو دوبارہ پرانی شکل میں بحالی کی تھی لیکن مجال ہے کہ ادارے اور سیاستدان اس بارے میں سوچیں۔ جب یہ حالت ہوگی تو کون اسٹیبلشمنٹ کی کوششوں کو سنجیدگی سے لے گا اور کس طرح ریاست اور شہری کے مابین اعتماد بحال ہوگا؟ خطرہ یہ ہے کہ جوں جوں ہمیں یہ بات سمجھنے میں تاخیر ہوتی جائے گی معاملات ہاتھ سے نکلتے جائیں گے۔
صوبے میں تعلیم کی یہ حالت ہے کہ اکثریتی جامعات کے پاس ادائیگیوں کے لیئے پیسے تک نہیں ہیں۔ طلباء اور طالبات سے بھاری فیسں وصول کرکے اس خسارے کو پورا کیا جاتا ہے۔ لیکن آئیندہ کچھ مہینوں میں طلباء وطالبات مزید بوجھ اٹھانے کے حامل نہیں رہیں گے اور پہلی بار ہم بڑے پیمانے پر یونیورسٹی سطح پر ڈراپ آؤٹ کا رحجان دیکھیں گے۔ جہاں تک یونیورسٹیز کی افادیت ہے دور دور تک اس میں تحقیق کا عنصر نظر نہیں آتا۔ کوئی بھی یونیورسٹی بین الاقومی معیار کے مطابق طلباء وطالبات کی پیداوار بڑھانے سے ہے۔ مارکیٹ کے لیئے جس استعداد اور صلاحیت کی ضرورتیں ہیں ہماری جامعات نے اس پر انکھیں بند کر دی ہیں۔ یہ وہی جامعات ہیں جو کسی زمانے میں ملک کو قیادت فراہم کرتی رہی ہیں آج بانجھ پڑی ہیں۔ ملکی سیاست اور اس کی قیادت سنبھالنے کا واحد حل اور ان مسائل کے حل کے جوابات دینے والے انہی جامعات سے آنے ہیں۔ طلباء یونیز پر پابندی نے آج ہماری ریاست کو سہارے لینے پر مجبور کر دیا ہے۔ اگر اس حوالہ سے قانون سازی کی جاتی اور یہ حقیقت تسلیم کردی جاتی کہ ہم جو یہ ملک کا مستقبل مستقبل کرتے ہیں وہ دراصل انہی جامعات میں پڑھنے والوں کے لیئے کرتے ہیں تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ ویژنری لیڈرشپ نے اگر آنا ہے تو انہی جامعات سے ہی آنی ہے۔ اس لیئے ہنگامی بنیادوں پر طلباء یونینز کی بحالی اور ان کی سرگرمیوں کی سرپرستی سے ہی ریاست اپنے مستقبل کو محفوظ بنا سکتی ہے۔


شیئر کریں: