میانوالی حملہ: تحریک جہاد پاکستان حقیت یا فسانہ؟

چیف رپورٹر جنوبی پنجاب محمد عامر حسینی

جنوبی پنجاب کے ضلع میانوالی میں واقع پاکستان ائرفورس کے تربیتی مرکزایم ایم عالم ائربیس پر ہوئے
دہشت گرد حملے کی ذمہ داری تحریک جہاد پاکستان نے قبول کرلی ہے۔ حملہ 4 نومبر کی صبح اس وقت ہوا
جب آتشیں اسلحہ اور گولہ بارود سے لیس دہشت گردوں کا ایک گروپ ائر فورس کے تربیتی مرکز میں داخل
ہوا. اس نے وہاں موجود تنصیبات اور طیاروں کو تباہ کرنے کی کوشش کی.

روئٹرز سمیت بین الاقوامی خبر رساں ایجنسیوں کی رپورٹس کے مطابق جنوبی پنجاب میں صوبہ خیبرپختون
خوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی سرحد کے قریب واقع ضلع میاںوالی میں پاک فضائیہ کے انتہائی
اہم مرکز پر ہوئے دہشت گرد حملے کی ذمہ داری حال ہی میں نمودار ہونے والے جہادی گروپ ‘تحریک جہاد
پاکستان ( ٹی جے پی) نے قبول کی ہے۔

تحریک جہاد پاکستان کے ترجمان ملّا محمد قاسم نے 4 نومبر 2023ء کو ایک بیان میں ایم ایم عالم ائربیس
میانوالی پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ وہ حملہ تحریک جہاد پاکستان سے تعلق رکھنے والے
مجاہدین نے کیا- انھوں نے اس حملے کو فدائی حملہ قرار دیا-
انھوں نے دعوی کیا کہ تحریک جہاد پاکستان سے تعلق رکھنے والے حملہ آوروں نے بیس کے دو کمپاؤنڈ کو
نشانہ بنایا جن میں سے ایک کمپاؤنڈ پر تربیتی مشقوں کے لیے استعمال ہونے والے طیارے اور دوسرے کمپاؤنڈ
میں بمبار طیارے کھڑے تھے۔
ترجمان تحریک جہاد پاکستان نے تربیتی مشقوں کے لیے استعمال ہونے والے طیاروں اور جیٹ بمبار طیاروں
کو تباہ کرنے کا دعوی کیا ہے۔ ترجمان نے اپنے بیان میں کہا انھوں نے جیٹ بمبار طیاروں کو اس لیے نشانہ بنایا
کہ پشتون اور بلوچ علاقوں میں بمباری میں استعمال ہوتے تھے ایک ٹینک بھی تباہ کرنے کا دعوی کیا-

پاکستان کی مسلح افواج کے ترجمان آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گردوں کو ائر بیس کے اندر آپریشنل کمپاؤنڈ
اور تربیتی کمپاؤنڈ میں داخل ہونے نہیں دیا گیا- آئی ایس پی آر نے حملے کو ناکام دہشت گرد حملہ قرار دیا اور
9 دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا جن کی تصاویر بھی ائی ایس پی آر نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس
پر بھی جاری کیں.

آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز

“پی اے ایف ٹریننگ ایئربیس میانوالی میں کومبنگ اینڈ کلیئرنس آپریشن مکمل کر لیا گیا ہے اور تمام 9 دہشت گردوں
کو جہنم واصل کر دیا گیا ہے۔ آج صبح بیس پر بزدلانہ اور ناکام دہشت گرد حملے کے بعد آس پاس کے علاقے میں
کسی بھی ممکنہ خطرے کو ختم کرنے کے لئے سیکورٹی فورسز کی جانب سے کامیاب آپریشن شروع کیا گیا تھا۔
حملے کے دوران پی اے ایف کے کسی بھی آپریشنل اثاثے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے جبکہ حملے کے دوران
پہلے سے مرحلہ وار ختم کیے جانے والے تین غیر آپریشنل طیاروں کو صرف کچھ نقصان پہنچا ہے۔
آپریشن کا فوری اور پیشہ ورانہ اختتام امن کے تمام دشمنوں کو واضح یاد دلاتا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج چوکس
ہیں اور کسی بھی خطرے سے مادر وطن کا دفاع کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہیں”۔

تحریک جہاد پاکستان اور انڈیا

آئی ایس آئی کے ایک اہلکار جنہیں میڈیا سے اس واقعے میں آفیشل بات کرنے کا اختیار نہیں ہے نے شناخت ظاہر نہ
کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایم ایم عالم آئر بیس میاںوالی پر 7 انتہائی اعلی تربیت یافتہ دہشت گردوں نے حملہ کیا
جن کی تعداد 9 تھی- انھوں نے فوجی طرز کی ودریاں پہن رکھی تھیں.
ان کے پاس ایم-16 اور ایم-4 جیسے امریکی ہتھیار تھے جو امریکی افواج نے آکست 2022ء میں افغانستان سے
جاتے ہوئے بڑی تعداد میں چھوڑ دیے تھے۔ دہشت گردوں نے اندھیرے میں دیکھنے کے لیے امریکی ساختہ گاگلز
بھی پہن رکھی تھیں-
اہلکار کا کہنا تھا کہ تحریک جہاد پاکستان اور ہندوستانی میڈیا و سوشل میڈیا کا اس حملے کے بارے میں ایک سا
ڈسکورس ہے. دونوں اس حملے کے دوران ائر بیس پر لاجسٹک اور انفراسٹرکچر نقصان کو بڑھا چڑھا کر پیش کر
رہے ہیں- اہلکار کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قومی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں جس
سے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں ہے کہ بلوچ علیحدگی پسند اور تحریک جہاد پاکستان، تحریک طالبان پاکستان، لشکر
جھنگوی اور دولت اسلامیہ خراسان پاکستان کے درمیان کہیں نہ کہیں باہمی روابط موجود ہیں. ان کے پیچھے بھارت
کی انٹیلی جنس ایجنسی ری؛سرچ اینڈ اینالاسز ونگ “را” کی فنڈنگ اور تربیت کارفرما ہے۔

پاکستان میں جہادی اور قوم پرست مسلح تحریکوں اور تنظیموں پر تحقیقاتی ویب سائٹ ‘خراسان ڈائری’ ٹی کے ڈی
کے بانی ایڈیٹر افتخار فردوس کے مطابق تحریک جہاد پاکستان- ٹی جے پی نسبتا ایک نئی عسکریت پسند تنظیم ہے
جو فروری 2023ء میں نمودار ہوئی تھی-
ٹی جے پی نے اس سال فروری میں پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے ضلع چمن میں اپنے پہلے حملے
کی ذمہ داری قبول کی تھی. بعد میں شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا ہ کے شہر سوات میں انسداد دہشت گردی کی
تنصیب میں ہونے والے حالیہ دھماکوں میں ملوث ہونے کا دعویٰ کیا تھا، جس کی اب تک کی سرکاری تحقیقات سے
پتہ چلتا ہے کہ یہ دہشت گردی کی کارروائی نہیں تھی۔

27 اپریل 2023 کو اسی گروپ نے ایک اور دعویٰ کیا جس میں کہا گیا کہ وہ خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع لکی
مروت میں سیکیورٹی فورسز کے کمپاؤنڈ پر گاڑیوں پر مبنی دیسی ساختہ دھماکہ خیز ڈیوائس (وی بی آئی ای ڈی)
خودکش حملے میں ملوث تھا.

تحریک جہاد پاکستان کی حقیقت

پاکستان کے عسکریت پسندوں کے منظرنامے سے براہ راست واقف سیکیورٹی حکام کا خیال ہے کہ یہ پراسرار گروہ
دراصل ملک کی دیگر بڑی تنظیموں جیسے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) یا حافظ گل بہادر گروپ کے لیے
ایک انڈر کور کا کام کررہا ہے.

“یہ نئی حکمت عملی ہے اور ہم ٹی ٹی پی اور حافظ گل بہادر کی طرف سے حملوں کے اس نئے رجحان کا مشاہدہ کر
رہے ہیں تاکہ عوامی مذمت سے بچا جا سکے، ان میں سے کچھ یا تو لاوارث ہیں یا کم معروف گروہوں کی طرف
سے ذمہ داری قبول کی گئی ہے”۔

عبداللہ یاغستانی کون ہے؟

ٹی جے پی کے ترجمان جنہوں نے اپنا تعارف ملا قاسم کے طور پر کرایا، نے تنظیم کو ایسے عسکریت پسندوں پر
مشتمل تنظیم قرار دیا جو اس سے قبل افغانستان پر سوویت اور امریکی حملوں کے دوران لڑائی میں ملوث رہے ہیں۔
اس گروپ کے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے قاسم نے کہا کہ وہ دیوبند مکتب فکر کے سخت پیروکار ہیں۔

“ہماری جدوجہد (معروف دیوبندی عالم دین مفتی محمود حسن اسیر مالٹاکی شروع کردہ) تحریک ریشمی رومال (1915ء
میں شروع ہوئی) کا تسلسل ہے”، ترجمان نے وضاحت کی

گروپ کے ترجمان نے کہا کہ ان کا رہنما عبداللہ یاغستانی ہے ، ایک بین الاقوامی تحقیقاتی ادارے جیمز ٹاؤن آرگنائزیشن
کے مطابق ٹی جے پی کا مبینہ سرغنہ عبداللہ یاغستانی نے جامعہ فاروقیہ (کراچی میں ایک ممتاز دیوبندی مدرسہ)
سے تعلیم حاصل کی تھی اور وہ افغانستان میں امریکی / نیٹو افواج کے خلاف لڑنے میں ملوث رہا ہے۔

جیمز ٹاؤن آرگنائزیشن کی آفیشل ویب سائٹ پر ٹی جے پی کے بارے میں موجود ایک تحقیق کے اخر ميں لکھا گیا ہے:

“ٹی جے پی پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے والے ایک نئے عنصر کے طور پر ابھری ہے، خاص طور پر بلوچستان
میں جو پہلے ہی بلوچ نسلی قوم پرست عسکریت پسند گروہوں، ٹی ٹی پی اور آئی ایس کے پی کے حملوں کا شکار ہے۔
بلوچستان 62 ارب ڈالر کے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت چین کی مالی اعانت سے چلنے والی
اہم ترقیاتی سرگرمیوں کا مرکز بھی ہے، جو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا فلیگ شپ منصوبہ ہے۔
ٹی ٹی پی اور ٹی جے پی دونوں کا ایک ہی ریاست مخالف ایجنڈا ہے جس میں پاکستان کی سیکیورٹی فورسز مشترکہ
ہدف کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ دونوں گروہ طالبان کی امارت اسلامیہ افغانستان کی طرز پر پاکستان کو ایک اسلامی
ریاست میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ ٹی ٹی پی اور ٹی جے پی اصل میں ایک ہی گروہ ہیں یا نہیں،
وہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں”۔

تحریک جہاد سے متعلق ادارے کیا سوچ رہے ہیں؟

پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیوں کے حکام کا آج سے پانچ ماہ قبل تحریک جہاد پاکستان کے بارے میں یہ دعوی رہا تھا
کہ اس گروپ کا دائرہ کار صوبہ خیبر پختون خوا کے جنوبی حصّے میں لکی مروت تک محدود ہے اور یہ کچھ زیادہ
مضبوط گروپ نہیں ہے لیکن فروری 2023ء سے نومبر 2023ء کے پہلے ہفتے تک اس گروپ نے جنوبی خیبرپختون
خوا، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں متعدد دہشت گردی کی کاروائیاں کی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سی ٹی ڈی
سمیت پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کا اس گروپ کے بارے میں لگائے گئے ابتدائی اندازے کس قدر خام تھے.