قائد اعظم کے پاکستان سے کھلواڑ کون کر رہا ہے؟

تحریر ندیم رضا
قائد اعظم، قائد اعظم اور قائد اعظم بس، جسے دیکھو اپنے مزموم مقاصد کا حصول ممکن بنانے کے لیے قائد اعظم
کو ہی بیچتا رہتا ہے۔

پاکستان میں سیاست گھم ہو گئی؟

قائداعظم کو سب ہی چاہتے ہیں اور جو لوگ نہیں چاہتے وہ بھی عقیدت و محبت کا دم بھرتے ہیں۔ سرکاری ہوں
یا نجی دفاتر سب ہی جگہ باس کی کرسی کے پیچھے قائد اعظم کی تصویر لگی ہوتی ہے۔ جائز تو کم ہی لیکن ہر ناجائز اور
غیر قانونی کام قائد اعظم ہی کی تصویر کے زیر سایہ کیا جاتا ہے.

نیا پار لگانے والے قائد

سب ہی انہیں اپنا نجات دہندہ ضرور قرار دیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں قائد اعظم ہی ہیں جو سب کی نیا پار لگاتے
ہیں۔قائد اعظم کو سیاستدان سے لے کر بلڈر مافیا، سڑکیں بنانے والی بڑی یا چھوٹی کمپنیاں سب ہی قائد اعظم کے
ذریعے بند تالے کھولنے کا فن بخوبی جانتے ہیں۔
اس طرح کے سب ہی لوگ بابائے قوم کو عظیم ترین لیڈر سمجھتے ہیں۔ ان کے ایام بڑے زور و شور سے مناتے ہیں
لیکن ان کی ایک نہیں مانتے۔

لوٹ مار کرنے والی اشرافیہ کے سوا پاکستان کا ہر شہری ہیجانی کیفیت سے دوچار ہو رہے۔ کیونکہ یہ وہ پاکستان تو ہر گز نہیں
جیسا قائداعظم چاہتے تھے۔ سیاستدان ہوں یا ملک کے کرتا دھرتا سب کو اپنی لگی ہوئی ہے۔ ان کی تمام تر توجہ اپنی نسلوں
کا مستقبل سنوارنے پر ہے۔ قائداعظم کا نام صرف ایک شیلڈ کے طور پر ہی رہ گیا۔ جسے وقت ضرورت نکال لیا جاتا ہے اور
پھر بس۔

قوم کیوں‌نہیں بن سکے؟

معزرت کے ساتھ ہم آج تک ایک قوم ہی نہیں بن سکے۔ ہم تو بس ایک بے ہنگم ہجوم سے زیادہ کچھ نہیں۔ قوم
بننے میں‌سب سے بڑی رکاؤٹ اقتدار پر قابض مفاد پرست حکمران ٹولہ ہے جو پاکستان کو قائد اعظم کا حقیقی پاکستان
نہیں بننے دیتے. قائداعظم تو کرپشن اور اقربا پروری سے پاک پاکستان چاہتے تھےجہاں انصاف اور میرٹ کا بول بالا
ہو .

سیاسی حکومتیں ہوں یا آمریت سب ہی قائد اعظم کے فرمودات کی نفی کرتے آئے ہیں۔ ان سے قائد کی محبت
کے دعوؤں سے لبریز لمبی لمبی تقررییں کروالو مجال تھکاؤٹ کا احساس بھی ہو لیکن عملی طور صفر۔
قائد اعظم سب کو جوڑنا اور یکجا کرنا چاہتے تھے۔ افسوس ہمارے ناعاقبت اندیش حکمرانوں نے تقسیم در تقسیم کے نظریہ
کو پروان چڑھایا۔ اب بھی ہم ماضی سے سبق لینے کو آمادہ دیکھائی نہیں دیتے پھر وہی غلطیاں دھرائی جارہی ہیں.

آزادی کیوں‌نہیں ؟

قائد اعظم ایسا پاکستان چاہتے تھے جہاں سب اپنے عقیدے کے مطابق آزادی سے زندگی گزار سکیں۔ افسوس اپنے
مزموم مقاصد کا حصول ممکن بنانے کے لیے ان مفاد پرست حکمرانوں نے سرزمین پاکستان پر نفرتوں کے بیج بوئے۔
فتووں کی فیکٹریاں لگانے والوں کی سرپرستی کی۔ قائد اعظم کے پاکستان میں مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو قتل کیا گیا۔
تہوار ایک دوسرے کو جوڑنے اور قریب لانے کا سبب بنتے ہیں لیکن قائد اعظم کے پاکستان میں تہوار ایک دوسرے
کو توڑنے اور دور کرنے کا سبب بنادیے گئے۔ قائد اعظم کے پاکستان میں خوشی ہو یا غم سب ہی سنگینوں کے سائے
میں منائے جانے لگے۔
جلوسوں کے مواقعوں پر موبائل فون سروس بند، موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی، دکانیں اور مارکیٹس کئی روز پہلے
ہی سے سیل کر دی جاتیں ہیں۔ کئی کئی کلو میٹر تک سڑکیں گھنٹوں پہلے بند کر دی جاتی ہیں۔ یہی صورت حال
کرکٹ میچ کے موقع پر بھی ہوتی ہے۔ قائد اعظم نے تو ہمیں ایک آزاد معاشرہ فراہم کیا تھا کسی کی آزادی سلب
کرنے کا تصور بھی نہ تھا پھر آج ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

انصاف مرضی کا

معاشرہ کے اس بگاڑ میں جتنے قصور وار حکمران ہیں اتنے ہی قصور وار عوام بھی ہیں۔ عدل و انصاف کی صورت حال
بھی بالکل واضح ہو چکی ہے۔ سب کو اپنی مرضی کا انصاف اور قانون چاہیے۔ کوئی قانون کی حکمرانی نہیں چاہتا۔ سیاستدان
اور بااثر افراد مجرم ہوتے ہوئے بھی بیرون چلے جاتے ہیں اور غریب بے قصور سلاخوں کے پیچھےزندگی گزار دیتا ہے.
افسوس حکمرانوں کی طرح میڈیا بھی عوام کو ایک دوسرے سے دور کرنے کا کردار ادا کر رہا ہے۔ قائد اعظم کے پاکستان
کا چہرہ مسخ کرنے میں تمام ہی ادارے بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔

مطلب کی قانون سازی

قائد اعظم کے پاکستان میں تعلیم اور صحت کا شعبہ سب سے منافع بخش کاروبار بنا دیا گیا ہے۔ سازش کے تحت
حکومت نے ان دونوں شعبوں کو کاروباری طپقہ کے حوالے کر دیا۔ قائد اعظم کے پاکستان میں تعلیم اور صحت
کے کاروبار سے وابستہ افراد عوام کو گدھ کی طرح نوچ رہے ہیں۔
یہ کیسا قائد اعظم کا پاکستان ہے جہاں عوام پر ظلم کرنے اور لوگوں کی مجبوریوں سے کھیلنے والے افراد اسمبلیوں میں بیٹھ کر
اپنے کاروبار کی ترقی و فائدے کے لیے مطلب کی قانون سازی کر رہے ہیں۔ دوسرے اراکین اسمبلی اس جرم میں‌
ان کا ساتھ دے رہے ہیں.

آخر کب تک؟

سابق وزیر اعظم عمران خان تو قائد اعظم اور مدینہ کی ریاست کا ورد کرتے رہے . سارا وقت گزار دیا باتیں کرتے کرتے
اور دوسروں پر الزامات لگاتے لگاتے لیکن پاکستان کو فلاحی اور جمہوری ریاست نہیں بنا سکے۔
ایسا ہی کچھ ان کے بعد آنے والی اتحادیوں کی حکومت نے کیا. وہ عمران خان پر الزامات لگاتے رہے اور آئندہ الیکشن
کے لیے قومی خزانہ لوٹتے رہے.
قائد اعظم کو 75 سال سے ہر چوراہے پر بیچا جارہا۔ قائد اعظم کو سچائی سے محبت اور منافقت سے نفرت تھی۔
قائد کا یوم پیدائش ایک بار پھر پچیس دسمبر کو شایان شان طریقے سے منائی جائےگی۔
قائد اعظم سے محبت کا اظہار کرنے اور ان کی یاد منانے کے لیے پچیس دسمبر کو عام تعطیل بھی کی جاتی ہے یہ
سب کچھ اپنی جگہ لیکن منافقت کا عالم یہ ہے کہ قائد اعظم کی مانی ایک بھی نہیں جاتی۔ آخر قائد اعظم کے پاکستان
کے ساتھ کھلواڑ کون کر رہا ہے؟