غزہ جنگ کب تک چلے گی اور کتنی لمبی ہو سکتی ہے۔ اس پر چھائے ہوئے گہرے سائے حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ
نے کم کر دیے ہیں۔ حزب اللہ کے سربراہ نے اپنے تازہ خطاب میں کہا ہے کہ جنگ بہت زیادہ لمبی نہیں ہو گی۔
اسرائیل کی جانب سے 7 اکتوبر کو غزہ کے نہتے مسلمانوں پر مسلط کی گئی جنگ کے خلاف سب سے زیادہ سخت بیانات حزب اللہ کی جانب سے ہی آئے ہیں۔ حزب اللہ نے زمینی کارروائیوں کے بجائے صرف فضائی حملے ضرور اسرائیل پہ کیے ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے بھی جنوبی لبنان میں کئی میزائل داغے گئے اور حزب اللہ کے بعض کارکن شہید بھی ہوئے لیکن حزب اللہ نے براہ راست اس جنگ میں شامل ہونے سے اب تک گریز کیا ہے۔
اسی طرح ایران نے بھی دنیا باالخصوص اسرائیل کو بھی جارحانہ عزائم سے باز رہنے کی تلقین بارہا کی لیکن وہ بھی اس جنگ میں براہ راست شامل ہونے سے گریز کر رہا ہے۔
غزہ کی صورت حال پر سعودی عرب کی قیادت میں گزشتہ روز عرب مسلمان ممالک کا غیر معمولی اجلاس ہوا جس میں ایران کے صدر ابراہیم رئیسی 11 سال بعد سعودی سرزمین پر آئے۔ اس کانفرنس نے بھی غیرمعمولی اعلان کے بجائے صرف جنگ بندی پر زور دیا۔
اب رہ گئے یمن کے حوثی جنہوں نے سعودی قیادت میں بننے والے 41 ممالک کے اتحاد کو شکست دے دوچار کیا۔ اس اتحاد کو امریکا اور اسرائیل کی مدد بھی حاصل تھی لیکن وہ ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں کو یمن کے دارلحکومت ثنا سے نکالنے میں ناکام رہے۔
بدترین ناکامی کے بعد سعودی عرب نے حوثیوں کو ایران سے ثالثی کے ذریعے جنگ بندی پر آمادہ کیا۔
مشرق مسطی کی صورت حال پر گہری نگاہ رکھنے والوں کا ماننا ہے کہ اس وقت کوئی بھی براہ راست اس جنگ میں شامل ہونے سے گریز اس لیے کر رہے ہیں کہ بعض عرب ممالک کھلم کھلا اسرائیل کی اس جنگ میں کسی نہ کسی طریقے سے مدد کر رہے ہیں اور باقی دیگر بھی خاموش تماشائی بن کے غزہ کے نہتے فلسطینیوں کی موت کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔
اسرائیلی بمباری سے غزہ بچوں کا قبرستان بن گیا
اگر ایسے میں ایران، حزب اللہ اور حوثی اس لڑائی میں شامل ہوجاتے ہیں تو پھر یہ تمام عرب ممالک کی ماضی کی طرح اس بار پھر کھل کے اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوجائیں گے۔ جیسا کہ سعودی عرب کی سرزمین سے امریکی اینٹٰی میزائل سسٹم سے اسرائیل کی طرف یمن سے آنے والے میزائل اور ڈرون روکے جارہے ہیں۔
ایسی صورت حال میں حزب اللہ کے سربراہ کی جانب سے دیا جانے والا یہ بیان کہ جنگ زیادہ لمبی نہیں ہو گی اس کی کئی جہتیں ہیں۔ حماس اس لڑائی کے ذریعے جو مقاصد حاصل کرنا چاہتی تو وہ حاصل کر لیے ہیں گوکہ اس جنگ میں غزہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ 11 ہزار سے زائد شہادتیں اور 30 ہزار سے کہیں زیادہ لوگ زخمی ہیں۔
ساری صورت حال کا موازنہ کیا جائے تو اس بات کے اب قومی امکانات ہیں کہ 1967 اور 1970 میں جس طرح عرب ملکوں اور پاکستان کے اس وقت کے بریگیڈیئر ضیا الحق نے جس طرح فلسطینیوں کا قتل عام کیا تھا اب کسی کی مجال نہیں ہو گی کہ وہ فلسطینیوں کے خون کا سودا کر سکے۔