عوام میں امید کیسے جاگے گی؟

شیئر کریں:

سید فخرکاکا خیل
اس ہفتے خیبرپختونخوا چترال واقعہ کے حوالہ سے قومی سطح پر ہیڈلائینز میں رہا۔ سعشل میڈیا پر ایک وڈیو
وائرل ہوئی جس میں دیکھا گیا کہ افغانستان کے صوبہ نورستان اور پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کی سرحد
پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مفتی نور ولی اپنے ان جنگجووں کو وائرلیس پر ہدایات دے رہے
تھے جو کہ افغانستان سے سرحد پار کرکے خیبرپختونخوا کے ضلع چترال میں دوسیکیورٹی چیک پوسٹوں پر
حملہ آور ہوئے تھے۔
ایک اور وڈیو میں دیکھا گیا کہ کس طرح پاکستانی طالبان پاک افغان سرحد پر لگی باڑ کو کاٹ کر پاکستان میں
داخل ہو رہے ہیں۔ چترال میں سرحد پار سے ہونے والے حملے میں چار سیکیورٹی اہلکار شہید ہو گئے ہیں۔
دوسری جانب افغان طالبان کے ترجمان ذبیہہ اللہ مجاھد نے بیان جاری کیا کہ چترال حملے کے لیے افغانستان
کی سرزمین استعمال نہیں ہوئی۔ خود عسکریت پسندوں کی جانب سے جو ثبوت فراہم کیئے گئے ان کو دیکھنے
کے بعد افغان طالبان کی جانب سے ذمہ داری لینے کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔
ایک تو یہ کہ افغانستان کے ان علاقوں پر افغان طالبان کا کوئی کنٹرول نہیں، دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ
پاکستانی طالبان کو روکنے کی قوت افغان طالبان کی عبوری حکومت کے پاس نہیں ہے۔ زمینی حقائق دیکھتے
ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں وجوہات بیک وقت ہو سکتی ہیں۔
نورستان، بدخشان اور کنڑ افغانستان کے وہ صوبے ہیں کہ جو تاریخی اعتبار سے پوری طرح کابل کی دسترس
میں نہیں رہے۔ روسی اور امریکی اتحادی افواج کی انخلاء کو عمل بھی انہی علاقوں سے شروع ہوا۔ جب روس
کی پشت پناہی کے ساتھ کابل میں ایک مضبوط افغان حکومت موجود تھی تب بھی نورستان میں کابل مخالف
تحریکیں کامیابی سے چلتی رہیں۔
روس کے خلاف جنگ میں بھی نورستان اور کنڑ کا شمار خطرناک ترین علاقوں میں ہوتا تھا۔ اس کے بعد
امریکی اتحادی افواج کو سب سے شدید مزاحمت ان ہی علاقوں میں سامنے آئی۔ 2009ء میں The Battle of Kamdesh ایک تاریخ رکھتی ہے کہ کس طرح امریکی اتحادی افواج کو اس علاقےبھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔
اب جب افغان طالبان حکومت میں آگئے ہیں تو بھی ان علاقوں میں ان کی مخالف قوتیں کافی مؤثر ہیں۔ داعش اور شمالی مزاحمت محاذ کے عناصر ان علاقوں میں موجود ہیں۔ چترال حملے کے بعد ملحقہ صوبہ بدخشان میں داعش کے جنگجووں کی گرفتاری کا دعوی بھی کیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نورستان مجموعی طور پر کم ابادی رکھتا ہے لیکن اس کی تزویراتی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ایک طرف یہ افغان صوبہ بدخشان کی سرحد پر ہے جس کی سرحدیں آگے تاجکستان اور چین کے ساتھ ملتی ہیں دوسری طرف اس کی سرحد چترال کے ساتھ لگتی ہیں جس کی سرحد پاکستانی صوبہ گلگت بلتستان کے ساتھ لگتی ہے جو آگے جاکر چین اور ہندوستان کے زیرانتظام مقبوضہ کشمیر کے ساتھ سرحد رکھتا ہے۔
یہ تو وہ ساخت ہے کہ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتنا اہم علاقہ ہے اور کیوں اس پر قبضہ برقرار رکھنا مشکل ہے۔ دوسری وجہ افغان طالبان کی پاکستانی طالبان کے آگے بے بسی ہے۔ماضی میں جب گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد افغان طالبان پر دباؤ القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کے لیئے بڑھا تھا اس وقت افغان طالبان نے اسامہ بن لادن کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کیا تھا۔ کیونکہ افغان طالبان اسامہ بن لادن کو ایک محسن کے طور پر دیکھتے تھے کہ جس نے روس کے خلاف جہاد میں ان کا ساتھ دیا تھا۔ اب جب پوری دنیا کے کہنے پر انہوں نے القاعدہ کا ساتھ نہیں چھوڑا تو اب پاکستان کے کہنے پر وہ پاکستانی طالبان کا ساتھ کیوں چھوڑیں گے۔ پاکستانی طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی ایک تاریخ ہے۔ اس تاریخ کو جاننے والے سمجھ سکتے ہیں کہ حقانی نیٹ ورک کے لیئے پاکستانی طالبان کی طاقت کیوں ضروری ہے اور پاکستانی طالبان کے حقانی نیٹ ورک پر بیس سالہ افغان جنگ کے دوران کتنے احسانات ہیں۔
جس روز چترال پر افغانستان کی جانب پاکستانی طالبان نےچڑھائی کی تھی اسی روز پاک افغان سرحد طورخم پر بھی پاک افغان سیکیورٹی اہلکاروں کے مابین جھڑپ ہوئی۔ اس کے بعد سے پاک افغان سرحد طورخم کو ہر قسم کی آمد ورفت کے لیئے بند کردیا گیا۔ سیںکڑوں گاڑیاں اور عام افغان شہری جن میں زیادہ تعداد علاج کی عرض سے پاکستان آنے والوں کی تھی سرحد پر پھنس گئی۔کیونکہ افغان شہری مریضوں کی ایک بڑی تعداد وسطی ایشیائی ریاستوں اور ایران کی بجائے پاکستان کا رخ کرتی ہے۔ لیکن پاک افغان سرحد پر اس طرح کشیدگی کے باعث یہ مریض اب ہوائی راستے سے ہندوستان کا رخ کرتے ہیں۔ اس لیئے یہ پاکستان کی ضرورت ہے کہ جلد ازجلد سرحدات پر زندگی کو نارمل بنائیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پشاور سمیت پورے خیبرپختونخوا میں حالات سقوط کابل کے بعد خراب ہونا شروع ہو گئے اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں بالعموم اور خیبرپختونخوا میں بالخصوص امن وامان افغانستان میں طالبان کی آمد کے بعد بگڑ چکی ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ صوبے کی اقتصاد کو بھی خاصا دھچکا پہنچا ہے۔ پشاور کی کرنسی مارکیٹ کی بندش کے بعد افغانستان میں ڈالر کی قیمت بڑھنے کو بھی پاکستان میں ڈالر کے بڑھتے ریٹ سے ہی جوڑا گیا۔
صوبے کی اقتصاد کے حوالہ سے اثرات کا جائزہ لیا جائے تو تحریک انصاف کی سابق صوبائی حکومت کے شروع کردہ عوامی صحت پروگرام “صحت کارڈ” کا ذکر ضروری ہے۔ دراصل یہ اس حکومت کا وہ سیاسی فیصلہ تھا کہ جس کی بدولت وہ عوامی جذبات کو اپنے لیئےووٹ میں بدلنا چاہتے تھے۔ عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان پیپلزپارٹی، جمیعت علماء اسلام، مسلم لیگ اور جماعت اسلامی سمیت سیاسی جماعتیں خیبرپختونخوا کے عوام کو یہ سمجھانے میں ناکام رہی ہیں کہ صحت کارڈ دراصل صحت کی بیمہ پالیسی تھی۔ اس میں عوام کے پیسے اور ایک جرمن بینک کو ملا کر ایک بیمہ کمپنی سے معاملات طے کیئے گئے تھے۔ اس سارے نظام کی آڑ میں عوام کے اربوں روپے نجی ہسپتالوں، لیبارٹریوں اور ادویات کی مد میں لوٹے گئے۔ اب صوبے کے پاس وہ رقم نہیں رہی کہ وہ بیمے کی قسطیں جمع کرے اس لیئے یہ نظام ناکامی سے دوچار ہوا۔ یہ نظام دنیا میں پہلی بار نہیں آزمایا گیا بلکہ ترقی یافتہ ممالک بشمول امریکہ میں یہ نظام رائج ہے لیکن وہاں کی اقتصاد اور معاشرہ بھی جا کر آپ دیکھ لیں۔
کوئی سیاسی جماعت ایسی نہیں کہ تحریک انصاف کے شعبہ صحت کی بربادی پر عوام کو سادہ الفاظ میں سمجھا سکیں۔ دس سال بعد آپ کسی بھی سرکاری اسپتال جو ایم ٹی آئی کے تحت چل رہے ہیں کا جائزہ لیں۔ اس کی کارکردگی دیکھیں اور پھر سرکاری خزانے پر اس کا بوجھ دیکھ لیں۔ نگران حکومت کے ہاتھ جس طرح باندھے گئے ہیں کہ انہیں سمجھ ہی نہیں آ رہی ہے کہ کریں تو کیا کریں۔
کہا جا رہا ہے کہ ضم اضلاع کا بجٹ غائب ہے ظاہری بات ہے کہ جب بی آر ٹی، ایم ٹی آئی اور صحت کارڈ پر آپ اربوں روپے خرچ کریں گے اور جب سیکڑوں ارب روپے آپ قرض لیں گے تو انجام تو یہی نکلتا تھا اس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیئے۔ صوبے کے پاس اپنے وسائل تو اتنے نہیں ہیں کہ اس طرح کے منصوبوں کا مستقل بوجھ اٹھا سکیں۔ یہی وجہ تھی کہ نگران وزیراعلی نے وفاق سے آڈٹ کے لیئے ٹیم مانگی کہ پتا تو چلے کہ وفاق کی جانب سے دہشت گردی کی روک تھام کی مد میں جو خصوصی امداد فراہم کی جاتی رہی وہ کہاں گئی ہے۔ دیکھا جائے تو خیبرپختونخوا کا احتساب سب سے پہلے ہونا چاہیئے کیونکہ یہ پہلے سے ہی دہشت گردی سے متاثرہ صوبہ تھا اور اب بھی ہے اب ایسی حالت میں وہ کون سنگدل تھے کہ جنہوں نے اس صوبے کو بھی لوٹا۔ حال ہی میں آرمی چیف کے حوالہ سے یہ بات سوشل میڈیا پر گردش کرتی پائی گئی اور اب تک اس کی تردید بھی نہیں کی گئی کہ جس میں انہوں نے چار سیاستدانوں کی اقتدار میں آنے سے قبل اور بعد کی مالی حالت کا موازنہ کیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ کہ ان چار میں سے جو تین نام بتائے گئے ان کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے۔ جب یہاں تک اداروں کے علم میں ہے تو سوال یہ بنتا ہے کہ وہ ان پر ہاتھ کب ڈالیں گے کیونکہ ان تین ناموں میں سے دو نام تو ایسے ہیں کہ جن پر الزام لگایا کا رہا ہے کہ وہ ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے بن چکے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ عوام مہنگائی سے تنگ اور خودکشیوں پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اس کا فوری حل تو یہ ہے کہ لوٹ مار کی رقم لوٹنے والوں سے ریکارڈ پر وصول کی جائے اور اسے براہ راست بے نظیر انکم سپورٹ کی فراہم کردہ ڈیٹا کے مطابق مستحق خاندانوں میں تقسیم کی جائے۔ ایک بار یہ ہو جائے تو پھر دیکھ لیں کس طرح عوام میں امید جاگتی ہے اور کس طرح عوام نظام کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔


شیئر کریں: