تحریر محمد امنان
منقسم گروہوں کو شاید قوم بننے میں وقت لگتا ہے تبھی ہم 76 سالوں سے دائرہ در دائرہ بھٹک رہے ہیں ملک الگ حاصل کرنے کا مقصد کچھ اور تھا لیکن 76 سال بعد حقیقت کھلنے پہ پتہ چل رہا ہے کہ ملک حاصل کرنے کا اصل مقصد سیاسی بندر بانٹ تھی ، ملکی معیشت کا آج حال کیا ہے میڈیا اور اخباروں میں خبریں تو ہیں مگر چیدہ چیدہ آج میرے ملک میں ہر زبان پہ بس یہی الفاظ ہیں اب کون چھوڑ گیا پی ٹی آئی کو؟؟ آگے کون چھوڑ کے جائیگا نیوز چینلز کے ٹاک شوز پہ تبصروں میں سیاسی نجومی اور اینکرز دن رات بس ایک ہی گردان نظر آتے ہیں کہ فلاں پارٹی نے تب غلط کیا فلاں نے تب۔۔۔
آج یا آئندہ آنے والے دنوں کا نقصان ہم نہیں گن رہے کیونکہ ہمیں ایک نقطے پہ جمع رہنا آیا ہی نہیں آج جو حالت پی ٹی آئی کی ہے یہی حالت پیپلز پارٹی اور ق لیگ کی دیکھی گئی، پابندی لگانے کی بات ہے تو جماعت اسلامی پہ پابندی لگانے کی کوشش ہوئی ایم کیو ایم کی گود سے بھی ایم کیو ایم حقیقی ، اور مصطفی کمال کی پارٹی نے جنم لیا آج جو پی ٹی آئی چھوڑ کے جا رہے ہیں ان میں سے اکثریت کو جہانگیر ترین کے جہاز میں بھر بھر کے لایا گیا اور آج سب واپس جا رہے ہیں
یہاں 9 مئی کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس دن اچانک سے پی ٹی آئی نے ملک کی فوج کی تنصیبات شہدا کی یادگاروں اور سرکاری عمارتوں کا رخ کیوں کر لیا؟؟ آخر عمران خان کیا پیغام دینا چاہ رہے تھے؟؟ عمران خان حکومت میں آتے ہی سیاسی حریفوں کو گرانے میں لگے رہے اور حکومت جاتے ہیں اسٹبلشمنٹ کی طرف توپوں کا رخ کر دیا نوجوان نسل کے ذہن میں پراپیگنڈہ اس طرح سے بھرا کہ 9 مئی کو پی ٹی آئی کارکنان نے آرمی تنصیبات، سرکاری عمارتوں پر دھاوا بول دیا اسکے بعد صورتحال یہ ہے کہ عمران خان خود تو رہا ہو گئے لیکن انکے اشاروں یا انکی باتوں میں آ کر جن افراد اور نوجوانوں نے انتہائی قدم اٹھایا انکے مشکل ترین دن شروع ہو گئے اور ستم ظریفی یہ کہ عمران خان نے انہیں پہچاننے سے انکار کر دیا
لاہور جناح ہاوس حملے میں حاشر درانی نامی لڑکا پکڑا گیا آئی ٹی ایکسپرٹ تھا اچھا کما رہا تھا بس پراپیگنڈا کا شکار ہوا اور اب اسکا ٹرائل آرمی عدالتوں میں ہو گا ، اسکے اہلیخانہ پہ کیا گذر رہی ہے اسکی باقی زندگی کیسی گذرے گی کوئی نہیں جانتا
یہاں فیصل آباد میں رانا ثنا اللہ کے گھر اور آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ ہوا حملے کے الزام میں نامزد جنید افضل ساہی اور علی افضل ساہی کو انسداد دہشتگردی عدالت نے ضمانت دے دی، رانا ثنا اللہ کے گھر پر حملہ کرنے کیلئے کارکنان کو اکسانے میں پیش پیش سابق ایم پی اے میاں وارث نے ایک پریس کانفرنس سے اپنے تمام گناہ معاف کروا لئے
اس ملک کی سیاست بہت ظالم ہے ہم شروع سے کہتے آ رہے ہیں کہ سیاستدانوں کو اسٹبلشمنٹ کی بیساکھی سے ہٹ کر سیاسی اور عوامی طریقے سے اقتدار تک آنا چاہئے لیکن نہیں۔۔۔ اسکا انجام یہ ہوا کہ جس طرح لوگ گروہ در گروہ عمران خان پراجیکٹ میں شامل ہو رہے تھے اب ویسے ہی بھاگم بھاگ پی ٹی آئی سے لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں۔۔۔ کرنا بھی چاہئے ۔۔ کیونکہ کسی ایک شخص جو انا پرست اور خود پسند ہے کی دوبارہ اقتدار کی چاہت میں اپنے ہی ملک کو آگ لگانا کہاں کی دانشمندی ہے؟؟
پاکستان میں حلال مارکیٹ نہیں ہے؟
پی ٹی آئی کا پچھلے ایک سال سے بیانہ فوج مخالف تھا، انکے یوٹیوبرز نے دھڑا دھڑ مبالغہ آرائی اور جھوٹ پر مبنی وی لاگز بنا کر نوجوانوں کو گمراہ کیا اور فوج کے خلاف نفرت بڑھانے میں کردار ادا کیا۔۔ عدالتوں کا حال یہ ہے کہ آج سیاسی طور پہ عدالتیں بھی واضح تقسیم ہیں اسلام آباد ہائیکورٹ ، لاہور ہائیکورٹ اور خود چیف جسٹس آف پاکستان پی ٹی آئی کی طرف جھکاو رکھتے ہیں۔۔۔ کیوں؟ اسکا جواب آپ سب جانتے ہیں
لیکن یہاں قابل غور نقطہ یہ ہے کہ ملک کا غریب آدمی اس ساری سیاسی سرکس میں وہ معذور بن کے رہ گیا ہے جسے دکھا کر امداد مانگی جاتی ہے کہ دیکھیں جی اسکی حالت کیا ہو گئی ہے۔۔۔
اس سارے سیاسی ڈرامے میں سلطان راہی کی طرح بھڑکیں مارنے والے آج کس بے بسی اور شرمندگی سے پریس کانفرنس کر کے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کرتے ہیں دیکھ کر افسوس ہوتا ہے ، شیریں مزاری ، ملیکہ بخاری اور مسرت جمشید چیمہ ان تینوں خواتین کو ٹی وی پر پارٹی چھوڑنے کا اعلان کرتے دیکھ افسوس ہوا دکھ ہوا کہ یہ خواتین کیوں اس سب کا شکار ہو گئیں
سیاستدانوں یا طاقتور حلقوں کا ساتھ تو ہر ملک میں رہتا ہے لیکن ہمارے ہاں یہ رشتہ بہت ظالم ہے کل تک عمران خان طاقتوروں کا بغل بچہ تھا اسے اسٹبلشمنٹ کے خلاف بولنے والے زہر لگتے تھے لیکن آج وہی عمران خان پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی کا موجب ہے کہ اپنی پرانی تقریروں پر شرمندہ ہونے کی بجائے ڈھٹائی سے توجیہات پیش کر رہا ہے
امریکہ نے حکومت گرائی ، سائفر کا بیانہ پھر سابق آرمی چیف کا نام آیا ، پھر آصف زرداری ، شہباز شریف اور عمران خان کا بیانہ محسن نقوی پہ آ کے ختم ہو گیا اسکے بعد امریکہ سے معافی تلافی کا سلسلہ شروع ہوا اور آج امریکہ کو پکارا جا رہا ہے کہ میری مدد کو آئیں میرے تعلقات بہتر کروائیں
دوسری جانب پی ڈی ایم بالخصوص ن لیگ جس نے ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ بنایا اور فوج مخالف بیانات دئے آج یہ لوگ اسٹبلشمنٹ کے گڈ بے بیز ہیں پھر یہ کیا مذاق ہے کہ آپ 9 مئی کے ذمہ داران کو سخت سزائیں دینے کا فیصلہ کریں اور جو جو پریس کانفرنس کر کے پی ٹی آئی چھوڑ دے اسکے سارے گناہ ایک دم ڈیلیٹ؟ یہ کیا نظام ہے کیا پیغام دیا جا رہا ہے
ساری کہانی قوم جانتی ہے لیکن اس سب چکر میں نقصان غریب کا ہو رہا ہے مہنگائی نے عوام سے سوچنے کی صلاحیت بھی چھین لی ہے عدلیہ کا حال دیکھ لیں دنیا میں ہم کس نمبر پر ہیں لیکن ہماری عدلیہ کے کچھ ججز سیاسی رہنماوں کو خوش کرنے کے چکر میں ایک ایک دن میں کیس کا فیصلہ سناتے ہیں چھٹی کے دن بھی عدالت لگا لیتے ہیں لیکن کسی غریب کا کیس اس ملک میں سترہ سترہ سال تک لٹکا رہتا ہے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا
ملک کا حال کیا ہے آج عالمی سطح پر لوگ ہم پہ ہنس رہے ہیں ملک میں آڈیو ویڈیو کا راج ہے کسی کی بھی آڈیو ویڈیو لیک کر کے اسے ذہنی اذیت دینے کا خاص انتظام ہے بس نہیں ہے تو غریب کیلئے کوئی نظام نہیں ہے
میرے ناقص اور محدود علم کے مطابق جب تک ہماری سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے اسٹبلشمنٹ کی مدد طلب کرنے سے باز نہیں آئیں گی یہاں سیاسی سرکس یونہی چلتی رہے گی ہمارے ہمسائے ممالک میں سافٹ وئیرز بن رہے ہیں یہاں اپڈیٹ ہوتے ہیں وہاں لوگ نئی نئی ایجادات کر رہے ہیں ہم یہاں سیاسی کھینچا تانی کیلئے نت نئے منصوبے گڑھ رہے ہیں
اب سیاسی جماعتوں کے کارکنان کو بھی فیصلہ کرنا ہو گا کہ سیاسی قیادت کے پیچھے لگ کر اپنے ارد گرد کے لوگوں سے جھگڑا کرنا اور شدت پسندی سے نکل کر قوم بننا ہو گا ورنہ یہ سیاستدان یونہی بیوقوف بناتے رہیں گے اور ملک میں ایسے ڈرامے چلتے رہیں گے
افسوس ان کارکنان پہ ہے جو عمران خان کی انا کی تسکین کیلئے شدت پسندی میں حد سے گذرے اور اب جیلوں میں اپنے کردہ عمل کی سزا بھگت رہے ہیں اور آئندہ زندگی بھی انکے لئے آسان نہ ہو گی
کیا کیجئے
افسوس کہ ہم ایک قوم نہ بن پائے سیاسی بازی گروں نے ہمیں ایسے منقسم کیا ہے کہ ہم سیاسی جماعتوں میں بٹ کر رہ گئے ہیں ، قوم۔۔ معذرت کیساتھ لوگوں سے اپیل ہے کہ اس سب سے نکلیں خدارا مستقبل کو دیکھیں اور ملک کو مضبوط بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کیجئے