تحریر علیم عثمان
اُردُو صحافت کے صاحب؍ طرز ایڈیٹر سَرور سُکیھرا کے جنم دن کے تناظر میں ایک فی البدیہہ تاثر شاندار شخصیت ، جس نے اس حبس زدہ سماج میں پہلے لبرل سوشو پولیٹیکل میگزین کی بُنیاد ڈالی۔ ؍بلا شُبہ ماہنامہ” دھنک” ایک روایت ؍شکن اور روایت ساز پرچہ ہونے کے ساتھ ساتھ ٹرینڈ سَیٹر میگزین ثابت ہَوا۔
گھُٹن کے ماحول میں تازہ ہوا کے ایک جھونکے کی مانند البتہ اسی کی وجہ سے ہمیں حسن نثار بھی تٌحفے / ورثے میں ؍ملا کہ سُکیھرا صاحب ہی ان کے mentor ہیں۔ یہ حضرت اَنہی کی دریافت ہیں . . یُوں کہہ ؍لیجئے کہ سَرور سُکیھرا حَسن ؍نثار کے “شباب کیرانوی” ٹھہرے تو یہ اُن کی” بابرہ شریف ”
جناب سَرور سُکھیرا اور “دھنک” کی وجہ سے ہی آج ہمیں یہ ؍دن دیکھنا پڑ رہا اور پُوری قوم خاص کر پیشہ؍ صحافت کو حسن نثار کو بھگتنا پڑ رہا ھے کہ اَن کے پیشہ ورانہ ؍کردار اور رویوں پر سنجیدہ پیشہ ور / ورکنگ جرنلسٹس کو شدید تحفطات ہیں مُحترم سزرور سَکھیرا کی شکل میں عارف والا جیسے ایک قدرے پسماندہ قصبے نے قوم کو ایک ذہین ایڈیٹر دیا۔
اَن کی اہلیہ ڈاکٹر مظاہرہ سذکھیرا بَہت قابل گائناکالوجسٹ تھیں ، اَن کے بُہت جلد دُنیا سے چلے جانے کا دَکھ آج تک کم نہیں ہَوا
سَرور سُکھیرا ،جناب مُجیبُ الرحمن شامی کی طرح چُونکہ بُنیادی طور پر میگزین کے آدمی تھے۔ ؍اس لئے اخبار نہ چلا سکے جب وزیراعظم بے نظیر بھُٹو نے اپنا فیملی پیپر روزنامہ مُساوات بطور ایڈیٹر اَن کے سپُرد کیا۔
میگزین کا آدمی ؍پکٹوریل جرنلزم کی طرف جھُکاؤ رکھتا ہے لہٰذا سُکھیرا صاحب نےبھی اھم شخصیات کی شادی بیاہ کی تقریبات کی نمایاں coverage کو ترجیح دی ، فوٹو گرافرز سے کہا ایسے فنکشنز کی لمبی لمبی (تصویری پٹیاں) بنا کے لایا کریں۔
فوٹو گرافر میاں خُوشنُود نے اپنا کیریئر بھی غالباً وہیں سے شروع کیا تھا جب وہ پہلی تصویری پٹی بنا کے لایا تو سُکھیرا صاحب نے میرے سامنے خُوش ہو کر اُسے اپنی جیب سے سَو رُوپے ؍انعام دیا تھا ، یُوں میاں خُوشنُود بھی حسن نثار کی طرح ایک طرح سے سُکھیرا صاحب ہی کا تُحفہ ھے جسے کمیُونٹی آج تک بھُگت رہی ھے۔
؍اسی طرح مُحترم حسن ؍نثار کو بھی کُچھ عرصہ کے لئے ایڈیٹر “مُساوات” بن جانے کا موقع ؍ملا مگر وہ بھی نہ چل سکے ، نہ اخبار چلا سکے۔ ایک رات “؍لیڈ سٹوری” کا مَتن گَم ہو گیا ، نیُوز ایڈیٹر نیر مرغَوب سخت پریشانی کے عالم میں تھوڑی تھوڑی دیر بعد ایڈیٹر سے جا کے کہے “؍لیڈ دی سُرخی تے کَڈ ؍دتّی اے ، حضُور ہَن خبر دا مَیٹر وی ؍بھجوا دیو” کیونکہ کاپی پریس میں جانے کا وقت ہو چلا تھا ، جب مَیٹر نہ ؍ملا تو ٹُن ایڈیٹر حسن ؍نثار نے کہا سُرخی لگا دیں اور ؍نیچے ؍لکھ دیں تفصیلات کل مُلاحظہ فرمائیں۔
؍اسی طرح ایک رات ایڈیٹر حَسن ؍نثار کی نطر سے جب کرائم ؍رپورٹر کی یہ خبر گُزری کہ ٹاون شپ میں موبائل پولیس نے رات گئے ایک گاڑی روکی جسے تنہا ایک لڑکی چلا رہی تھی ، ؍جس سے شراب کی ایک بوتل برآمد ہُوئی تو ایڈیٹر صاحب نے اس پر یک سطری مُختصر سرخی جمائی۔
” سَرد رات ، لڑکی اور شراب ”
بنیادی طور پر میگزین کے ادمی تو جناب محمُود شام اور ضیاء شاہد بھی تھے البتّہ ضیاء شاہد خبریت کی بھی
بے پناہ سَینس رکھتے تھے اَور خبر کو کسی طور جانے نہیں دیتے تھے۔ مجال ہے خبر ایک بار ان کی نظر یا کان
کے پاس سے گَزر جائے اور نظر انداز ہو جائے۔