چیف رپورٹر جنوبی پنجاب
پنجاب کے ضلع خانیوال کے نواحی قصبے مخدوم پور پہوڑاں میں بلاسفیمی کے مقدمے میں نامزد نوجوان
شیعہ مسلمان عمیر علی کو اس کے گھر کے سامنے فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا-
ایک حملہ آور آلہ قتل سمیت تھانہ مخدوم پور پہوڑاں میں پیش ہوگیا اور اس نے گرفتاری دے دی- تھانہ مخدوم
پور نے نوجوان عمیر کے قتل کا مقدمہ ایک نامزد اور دو نامعلوم افراد کے خلاف درج کرلیا گیا ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع خانیوال کے نواحی تاریخی قصبے مخدو پور پہوڑاں میں 2 اکتوبر 2023
بوقت 2 بج کر 55 منٹ پر تین افراد نے طاہر الطاف مغل نامی شخص مسلح 30 بور پسٹل کی قیادت میں محلہ
لوکل بازار گلی نمبر 9 میں اپنے گھر کے سامنے اپنے بھائی بخت علی کے ساتھ کھڑے شیعہ نوجوان عمیر
علی پر حملہ کیا. طاہر الطاف مغل نے 30 بور پسٹل سے اس پر گولیاں چلادیں-
ایک گولی عمیر علی کے بائیں ہاتھ کی کہنی پر جبکہ دوسری گولی سیدھی کنپٹی پر لگی جس سے عمیر علی
شدید زخمی ہوکر نیچے گر پڑا- عمیر علی کو موٹر سائیکل پر اسپتال لے جایا جارہا تھا راستے میں ہی دم توڑ گیا-
عمیر علی ولد زاہد محمود کے بارے میں پولیس اور صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس پر کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ
پاکستان نے صحابہ کرام کی گستاخی کرنے کا الزام لگایا تھا جس کا مقدمہ تھانہ مخدوم پور میں 318/23 درج
تھا اور مقتول عمیر علی ضمانت پر تھا-
گرفتاری دینے والے ملزم طاہر الطاف مغل نے صحافیوں کو بتایا ہے اس نے عمیر علی کو اس لیے قتل کیا کیونکہ
عدالت نے اسے سزا دینے کی بجائے ضمانت پر رہا کردیا تھا-
عمیر کے والد نے اپنی مدعیت میں تھانہ مخدوم پور پہوڑآں میں اپنے بیٹے کے قتل کا مقدمہ 498/23 زیر دفعہ
302 اور انسداد دہشت کردی ایکٹ کی شق 7 کے تحت درج کرایا اور اس میں اس نے اپنے بیٹے پر درج بلاسفیمی
کے مقدمے کو جھوٹا اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔
انسانی حقوق کی ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 2023ء میں بلاسفیمی کے قوانین کے
تحت 53افراد کو نظر بند کیا گیا ہے۔
بلاسفیمی کے الزام میں پاکستان میں بسنے والی مسلمان اور غیر مسلمان مذہبی اقلیتوں کو تعذیبی تشدد، مقدمات کے
اندراج اور قاتلانہ و بلوائی حملوں کا سامنا ہے۔
جولائی تا ستمبر 2023 تک کل 70 مقدمات بلاسفیمی لاءز کے تحت درج کیے گئے 298 اے اور پیکا ایکٹ کے
تحت 56 مقدمات درج ہوئے جن میں سے اکثریت شیعہ مسلمانوں، مسیحی اور احمدیوں کے خلاف درج کیے گئے-
سابقہ حکومت کے دور میں 298 اے میں ترامیم متعارف کرائی گئیں جس پر انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے کہا
تھا کہ ان ترامیم سے اقلیتی مسلمان فرقوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں پر بلاسفیمی کے الزامات میں شدت آئے گی اور
ان کو مزید مذہبی جبر کا نشانہ بنایا جائے گا-