بھارت میں مودی کے ہندتوا نظریہ نے انتہاپسندی کا بیج بچوں اور اساتذہ میں بھی بو دیا ہے. یونیورسٹی
اور کالج کے بعد اب پرائمری اسکولوں میں بھی مسلمان بچوں کے خلاف زہر اگلا جانے لگا ہے.
دہلی کے ایک اسکول کے چار طلبہ نے الزام لگایا ہے کہ ان کے استاد نے فرقہ وارانہ تبصرے کیے.ان
سے پوچھا کہ تقسیم کے وقت ان کے اہل خانہ پاکستان کیوں نہیں گئے تھے۔
بھارت کی سب بڑی ریاست اتر پردیش کے ضلع مظفر نگر میں اسکول کی وائرل ہونے والی ویڈیو کے
بعد صورت حال مزید خراب ہونے لگی ہے. اس ویڈیو میں خاتون ٹیچر ترپتا تیاگی کے حکم پر طالب علم
اپنے ہم جماعت مسلمان بچے کو تھپڑ مار رہا ہوتا ہے. ویڈیو میں ٹیچر ترپتا تیاگی فرقہ وارانہ ریمارکس
دے رہی ہے.
دہلی پولیس نے 9ویں جماعت کے طالب علموں کے اہل خانہ کی شکایت کے بعد گاندھی نگر کے سرکاری
سروودیا بال ودیالیہ کی ٹیچر ہیما گلاٹی کے خلاف مقدمہ تو درج کرلیا ہے لیکن بات آگے نہیں بڑھی.
مودی کے ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے زمین تنگ
مسلمان طالب علم کا کہنا ہے ہیما گلاٹی نے بدھ کو یہ فرقہ وارانہ تبصرہ کیا۔ اس نے خانہ کعبہ میں رکھے
مقدس پتھر ہجر اسود اور قرآن پاک کی شان میں گستاخی کی.
بات یہیں ختم نہیں ہوئی ٹیچر نے آگے بڑھ کے کہا “تقسیم کے دوران تم پاکستان نہیں گئے یہاں کیوں رہے
ہندوستان کی آزادی میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے”
اسکول میں پڑھنے والے دو بچوں کی والدہ کا کہنا ہے کہ “اگر اس ٹیچر کو سزا نہیں دی گئی تو دوسروں
کو بھی حوصلہ ملے گا” ان سے کہا جائے کہ وہ صرف پڑھائیں اور ایسے معاملات پر بات نہ کریں جن کے
بارے میں انہیں کوئی علم نہیں.
عام آدمی پارٹی کے رہنما انیل کمار باجپئی نے ٹیچر کے اس معل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا یہ
بالکل غلط ہے ایک استاد کی ذمہ داری بچوں کو اچھی تعلیم دینا ہے۔ استاد کو کسی مذہبی یا مقدس مقام
کے خلاف توہین آمیز تبصرہ نہیں کرنا چاہیے۔