تحریر اجمل شبیر
جب تک انسان میں چاہت یا خواہش ہے کوئی بھی چاہت یا خواہش ہے کیسی بھی چاہت یا خواہش ہے تب تک انسان خود کے سچ کو نہیں جان سکتا، تب تک انسان enlightened نہیں ہوسکتا جو چاہتوں یا خواہشات سے پار چلا جاتا ہے، چاہتوں سے transcend کرجاتا ہے وہی enlightened ہے ، وہی جانتا ہے کہ اس کا اور اس ساری کائنات کا سچ کیا ہے۔
چاہت ہی تو انسان کو باندھتی ہے ، چاہتیں ہی تو زنجیریں ہیں، چاہت ہی تو قید ہے ، چاہت ہی تو جیل ہے ۔ چاہت ہی تو اندھیرا یا جہالت ہے ۔چاہتیں ہی تو ہتھکڑیاں ہیں ۔ تو غلامی کی جیل میں بند ہو اس کی وجہ یہ چاہتیں ہی تو ہیں ۔
ڈیزائرز ، lusts اور cravings انہی کی وجہ سے تو ہم پرابلمز اور مسائل کی دلدل میں پھنسے پڑے ہیں ، کوئی کہتا ہے یہ بن جاوں ، وہ بن جاوں ، کوئی کہتا ہے یہ بن جاو ، کچھ پانے ، کچھ بننے کی چاہتوں نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا ۔
بھارت آنے سے پہلے سکندر یونان کے ایک بہت عظیم صوفی ڈاوزنی سے ملاقات کے لئے چلا گیا ۔ ڈاوزنی دریا کنارے ننگا بیٹھا تھا اور صبح کی دھوپ کے مزے لے رہا تھا ۔ سکندر نے جاتے ہی کہا ڈاوزنی خوش ہو جاو تم سے دنیا کا سب سے بڑا بادشاہ ملنے آیا ہے ۔
ڈاوزنی نے یہ بات سنی تو مسکرانے لگا ۔ ہنستے اس نے کہا کہ جو خود کو عظیم کہتا ہو وہ پاگل اور انا پرست تو ہوتا ہے عظیم نہیں ہوتا ۔ ہنستے ہوئے ڈاوزنی نے کہا سکندر تم بادشاہ نہیں ہو اس زمین کے سب سے غریب ترین ، مفلس ترین آدمی ہو اور تم سے زیادہ انا پرست انسان اس زمین پر آج سے پہلے مجھے نہیں ملا ۔
اس نے کہا جو عظیم ہونے کا دعوی کرتا ہے وہ اپنے اندر کے اندھیرے کو چھپانے کے لئے ایسا کرتا ہے ۔ یہ جو تم نے ہیروں جواہرات سے خود کو بھر رکھا ہے ، قیمتی لباس پہن رکھا ہے ، یہ جو تم نے تلوار اٹھا رکھی ہے ، یہ جو تمہارے پیچھے فوج کا قافلہ ہے یہ سب دکھاوا ہے ، ڈاوزنی نے کہا سکندر اندر توں بلکل خالی ہے ، ڈرا ہوا ہے ، اھساس کمتری میں لتھڑا ہوا ہے ۔ ڈاوزنی نے کہا سکندر لاکھ جتن کر لے ، ساری دنیا پر قبضہ کر لے ، ساری دنیا کا مالک بن جا تیری احساس کمتری مٹنے والی نہیں ، توں کبھی خود کو بھر نہ پائے گا ۔ ڈاوزنی کی باتیں سکندر کی سمجھ میں آرہی تھی کیونکہ ڈاوزنی سے یہ باتیں ہنستے ہوئے کہی تھی لیکن سخت لہجے میں کہیں تھی ۔ ڈاوزنی یہ یہ باتیں اتھارٹی سے کہیں تھی۔ جاہ و جلال میں کہیں تھی اور جس فقیر نے یہ باتیں کی تھی وہ اپنے زمانے کا سب سے بڑا saint تھا ۔
سکندر سے ڈاوزنی کی باتیں سنی تو اس کا سر ڈاوزنی کے سامنے جھک گیا اورسکندر کی انکھوں میں آنسوو تھے ۔ سکندر نے کہا ڈاوزنی تم سچ کہتے ہو ، آج پہلی بار ڈاوزنی میں تمہارے سامنے خود کو دنی کا مفلس ترین آدمی سمجھ رہا ہوں ۔
سکندر نے کہا میں دیکھ رہا ہوں تمہارے پاس کچھ نہیں، پھر ایسا کیا ہے تمہارے پاس جس کی وجہ سے میں خود کو شرمندہ محسوس کررہا ہوں ۔ ڈاوزنی مسکرایا اور اس نے کہا سکندر تیرے پاس سب کچھ ہے لیکن اور پانے کی چاہت ہے اس لئے توں غریب ہے اس لئے توں مفلس ہے اس لئے توں بھکاری ہے ۔ مسکراتے ہوئے ڈاوزنی نے کہا میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے لیکن اور کی چاہت بھی نہیں ہے ، کچھ پانے یا کھونے کی کوئی خواہش نہیں ہے ۔اس لئے میں بادشاہ ہوں اور توں میرے سامنے بھکاری ہے ۔
ڈاوزنی نے کہا سکندر زندگی ہاتھ سے ریت کی طرح پھسلتی جارہی ہے ، اب بھی وقت ہے سنبھل جا ۔ سکندر نے کہا ڈاوزنی تم سے ملکر دل خوش ہوگیا اور اب اگر دوبار میں اس دنیا میں ایا ، دوبارہ اس زمین پر خدا نے مجھے بھیجا تو خدا سے کہوں گا اس بار مجھے سکندر بناکر دنیا میں نہ بھیجنا اس بار ڈاوزنی بناکر مجھے اپنی زمین پر بھیجنا ۔
ڈاوزنی نے سکندر کی باتیں سنی تو زور زور سے ہنسنے لگا ، اس نے کہا سکندر تم نہیں سدھرنے والے ۔ اس نے کہا سکندر ابھی enlightened کیوں نہیں ہوجاتا ، ابھی بھی وقت ہے ابھی خود کے سچ کو کیوں نہیں دیکھ لیتا ، اس نے کہا معلوم نہیں خدا تم کو دوبارہ زمین پر بھیجتا ہے یا نہیں ، کل پر کیوں خود کے سچ کو ٹال رہے ہو ، ابھی اسی لمحے enlightened کیوں نہیں ہوجاتے ، خود کے سچ کو کل پر کیوں ٹالتے ہو؟
سکندر نے کہا ابھی ایک دم سب کچھ چھوڑ دینا بہت مشکل ہے ، ابھی کچھ ضروری کام ہیں جو مجھے کرنے ہیں ، ابھی کچھ چاہتیں ہیں جن کو پورا کرنا ہے ، ابھی کچھ نامکمل کام ہیں جن کو میں نے پورا کرنا ہے ۔
ڈاوزنی نے کہا پھر سکندر تم کبھی خود کے سچ کو نہیں جان سکتے ، آج جو تمہارے لئے مشکل ہے وہ کل بھی مشکل ہی ہوگا ، کل بھی تم یہی کہو گے کہ یہ سب کچھ ایک دم چھوڑنا مشکل ہے اور جو اپنے سچ کو کل پر ٹال دیتا ہے وہ صدا اندھیرے میں رہتا ہے ۔ وہ صدا جہالت میں جیتا ہے ، ایسا شخص کبھی enlightened نہیں ہوسکتا ۔
سکندر نے کہا ڈاوزنی تم سے ملکر خوش ہوئی ۔ سکندر نے کہا میرے لائق کوئی حکم ہو تو فرمائیں ۔ ڈاوزنی نے کہا سکندر میری کوئی چاہت نہیں ہے ، کوئی خواہش نہین ہے ، تم اگر میرے لئے کچھ کرنا ہی چاہتے ہو تو میں تم کو مایوس نہیں کروں گا ۔ تم ایک کام کرو میرے سامنے سے ہٹ جاو کیونکہ تم نے بہت دیر سے دھوپ روک رکھی ہے ۔
سکندر نے ڈاوزنی کی بات سنی اور ایک طرف ہٹ گیا جس پر ڈاوزنی نے سکندر کا شکریہ ادا کیا ۔
جاتے ہوئے سکندر نے کہا ڈاوزنی جب بھارت سے وآپس آوں گا تو سیدھا تمہارے پاس آوں گا اور ویسی ہی زندگی جیوں گا جیسے تم جی رہے ہو ۔
ڈاوزنی نے کہا سکندر دنیا کو فتح کرنے کے جس مشن پر تم جارہے ہو ایسے مشن سے کبھی کوئی لوٹ کر نہیں آتا ۔ تمہاری چاہتوں اور کواہشات کا سفر اتنا لمبا ہے کہ کبھی لوٹ نہ پاو گے ، کبھی خود تک پہنچ نہ پاو گے کیونکہ چاہتیں کبھی انسان کو خود کے پاس وآپس نہیں آنے دیتی ۔
چاہتوں اور کواہشات میں جو اٹک گیا وہ کبھی خود کے سچ تک نہیں پہنچتا کیونکہ چاہتیں کبھی انسان کو سچ سے ایک ہونے نہہیں دیتی ، کبھی خدا سے ملنے نہیں دیتی ۔
چاہتوں کا سفر ایسا ہے کہ کبھی پورا ہوتا نہیں ۔ موت آجاتی ہے لیکن چاہتیں کبھی ختم نہیں ہوتی ۔
اور سکندر کے ساتھ بھی یہی ہوا سکندر بھارت سے یونان لوٹتے وقت درمیان میں ہی مر گیا ۔ کہا جاتا ہے کہ جس دن سکندر مرا تھا اسی دن ڈاوزنی بھی مر گیا تھا ۔ یہ کہانی ہے ، کہانی جھوٹی بھی ہوسکتی ہے ، مگر کہانی اگر جھوٹی بھی ہے تو اس کہانی میں جو سچ کی دلکشی ہے وہ کبھی جھوٹی نہیں ہوسکتی ۔ کہانی جھوٹی سہی لیکن اس کہانی میں چھپی سچائی پر کوئی سوال نہیں کیا جاسکتا ۔
سچ کی کوئی زبان نہیں ہے، سچ خالی ہے ، سچ کے پاس کوئی الفاظ نہیں ہیں اس لئے سچ کو ظاہر کرنے کے لئے ایسی کہانیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔
زندگی چاہت کا کھیل نہیں ہے ، زندگی bless کا کھیل ہے ، زندگی بے سکونی کا کھیل نہیں ہے ، زندگی سکون کا کھیل ہے ۔ زندگی پریشانیوں کا کھیل نہیں ہے ، زندگی contentment کا کھیل ہے۔جو enlightened ہوگیا اس کے لئے زندگی اور موت دونوں کچھ نہیں ہیں ، جو خود کے سچ کو جان گیا وہ موت اور زندگی سے trascend کرگیا ۔جو خود کو جان گیا اس کے لئے ایک ہی چیز بچ جاتی ہے اور وہ ہے eternal existence ، اور eternal existence کا نہ کوئی آغاز ہے اور نہ کوئی انجام ہے ۔
اگر آپ موت سے ڈرے ہوئے ہیں تو کبھی enlightened نہیں ہوسکتے اور اگر آپ چاہت کے پیچھے بھاگ رہے ہیں تو بھی کبھی enlightened نہیں ہوسکتے ۔
منصور سہی کہتے ہیں کہ نہ میں پیدا ہوں اور نہ میں مروں گا اور یہی enlightenment ہے ۔ اس لئے وہ کہتا ہے کہ میں سچ ہوں کیونکہ سچ نہ پیدا ہوتا ہے اور نہ مرتا ہے اور نہ سچ کے پاس الفاظ ہیں اور نہ سچ چاہت کے پیچھے بھاگ رہا ہے ۔ جو جان گیا کہ پیدا بھی جسم ہوتا ہے اور مرتا بھی یہ جسم ہے تو وہ enlightened ہے ۔
زندگی جسے ہم کہتے ہیں وہاں تو چاہتں ہیں ، درد ہیں ، زخم ہیں ، غصہ ہے ، خواہشات ہیں اور کیا ہے زندگی میں جسے ہم زندگی کہتے ہیں ۔ یہ کیسی زندگی ہے جس میں ہر لمحہ موت سے ڈرتے ہو ، یہ موت تم سے کیا چھین سکتی ہے، جسے تم زندگی کہتے ہو وہاں کچھ بھی نہیں ہے سوائے دکھوں اور مسائل کے اس لئے موت سے کیوں ڈرتے ہو ، یہ موت تم سے کیا چھین سکتی ہے کچھ بھی تو نہیں ۔ ہم زندگی میں سب کچھ لٹا دیتے ہیں ، اپنے سچ سے غافل ہوجاتے ہیں اور چاہتوں کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں اور موت سے ڈرتے رہتے ہیں ۔
کیسی زندگی جیتے ہو جس میں کانٹے ہی کانٹے ہیں پھول کہیں بھی نہیں ہے اور موت سے ڈرتے رہتے ہو ۔ اس ہجوم کی دنیا میں تم کو ملا کیا ہے بے سکونی ہی ملی ہے بے چینی ہی ملی ہے اور ایک وجہ ہے چاہتیں اور کواہشات جو کم ہی نہیں ہوتے ۔ ہم سب ہارے ہوئے لوگ ہیں کیونکہ ہم نے زندگی میں چاہتوں کا جوا لگایا ہوا ہے جیتتے وہی ہیں جو چاہتوں سے آزاد ہیں ۔ جاگ جاو جاگنے کا نام ہی enlightenment ہے ۔ جو جاگ گیا اس نے زندگی کے سارے خزانے پالئے۔