تحریر ندیم رضا
پاکستان میں بجلی پانی کے بحران اور طویل ترین لوڈشیڈنگ کے بعد زائد بلوں کا شور ہرطرف سنائی دے
رہا ہے۔ اسی شور میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں. آئی ایم ایف معاہدے کے
ہاتھوں مجبور نگران حکومت کی وزارت خارجہ نے یکدم 26 روپے فی لیٹر پیٹرول کی قیمت بڑھا دی.
ملک کی تاریخ میں پیٹرول کی فی لیٹر قیمت 331.38 تک پہنچ چکی ہے نہیں معلوم اس میں اکتوبر کی پہلی
تاریخ کو اور کتنا اضافہ کیا جائے گا.
اوپر نیچے حکومتیں بدل گئیں نگراں آگئے لیکن عوام کی حالت بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب سے خراب
ہوتی جارہی ہے۔ عوام نے سوچا تھا کہ عمران خان کے جانے کے بعد شائد ان کی زندگی میں کچھ سکھ چین
آجائے گا۔ سکھ چین یا راحت تو دور کی بات ان کی زندگی مزید اجیرن بنا دی گئی. عوام کو زندہ در گور کرنے
کا سلسلہ ہنوز جاری ہے.
چہرے بدلنے سے کچھ نہیں ہوگا
ایک بار پھر ثابت ہوگیا ہے کہ حکومت بدلنے یا چہرے بدلنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ ہمیں موجودہ نظام میں کچھ اصلاحات
لانی ہوں گی اس کے بغیر ترقی یا ہماری حالت میں مثبت تبدیلی ممکن نہیں. پاکستان کی بدقسمتی سے
یہی ریت رہی ہے کہ ہر جانے والی حکومت نئی حکومت کی ناقص کارکردگی کے سبب مظلوم بن جایا کرتی
ہے۔ گوکہ اس نے بھی عوام کے مصائب بڑھانے میں اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہوتی. اس کی بنیادی
وجہ ہر آنے والی حکومت کی ترجیح عوام کی زندگی بہتر بنانے کی منصوبہ بندی کے بجائے اقتدار کا ہما
اپنے سر سجانا ہوتی ہے.
نگراں حکومت ہو یا انتخابات کے ذریعے اقتدار میں لائے جانے والے حکمران اپنے کاروباری مفادات کو مدنظر
رکھتے ہوئے فیصلے کرکے عوام کے لیے مزید مسائل کھڑے کردیتے ہیں۔
اس پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے جو بے سود اور وقت کا ضیاع ہوگا۔ میں اب جو آگے لکھنے جارہا ہوں اس
کے ذریعے حکومت اور عوام کی خصوصی توجہ چاہتا ہوں۔
ضروری توجہ
دنیا کس طرح ایک دن کے چوبیس گھنٹے بہتر انداز سے استعمال کرکے ترقی کررہی ہے اور ان ہی چوبیس گھنٹوں
کو ہم یعنی پاکستانی قوم کیسے ضائع کر رہے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی کے خواہش مند ترقی پزیر (پاکستان کے سوا) ممالک سورج طلوع ہونے سے بھی
پہلے اپنی صبح کا آغاز کرتے ہیں. شام کو مغرب سے پہلے بیشتر کاروباری مراکز بند کر دیے جاتے ہیں۔
پاکستان کے بڑے شہر کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں دکانیں تاخیر سے کھولی جاتی ہیں۔ اب تو خیر سے چھوٹے
چھوٹے شہروں کو بھی بڑے شہروں کا رنگ چڑھ گیا ہے۔
اپنے ارد گرد آپ خود ہی مشاہدہ کرلیں اگر میں غلط بیانی سے کام لے رہا ہوں۔ کراچی میں تو دوپہر کو دکانوں کے
شٹر اٹھائے جاتے ہیں۔ جلد دکانیں اور کاروباری مراکز بند ہونے کا تو کوئی تصور ہی نہیں کرسکتا۔ اسی طرح
شادی بیاہ کی تقریبات کا بھی کوئی وقت مقرر نہیں. جلد کاروباری سرگرمیاں شروع اور رات میں جلد کاروبار
بڑھانے کی بعض حکومتوں نے کوشش کیں لیکن بگڑی قوم نے ایک نا مانی اور سنی ان سنی کر دی.
یہ بندہ ناچیز 2013 سے اس انتہائی اہم مسئلہ پر آواز اٹھاتا آرہا ہے لیکن حکومت ہو یا عوام کسی کے سر پر جوں
تک نہیں رینگتی۔ اسی طرح سرکاری دفاتر کا بھی کچھ یہی حال ہے۔ بیشتر دفاتر میں دس بجے تک کوئی نہیں آتا
اور اگر آبھی جاتا ہے تو کام شروع نہیں ہوتا۔
افسران بھلے دس گیارہ بجے آئیں لیکن آفس بوائے ائیرکنڈیشن صبح سے چلائے رکھتے ہیں کیونکہ بل تو سرکار
کی جیب سے جانا ہے انہیں کیوں اس کی پرواہ ہونے لگی. پھر ہم کہتے ہیں ملک میں لوڈ شیڈنگ کیوں کی جاتی ہے.
ہم نے اپنی زندگی خود دشوار بنائی ہوئی ہے۔ ہمیں کس نے روکا ہے صبح جلدی اٹھنے اور معمولات زندگی صبح
صادق شروع کرنے سے؟
دن کی روشنی سے استعفادہ ہم کیوں نہیں کرتے؟
رات گئے تک دکانیں اور کاروباری مراکز کیوں کھولتے ہیں؟
کیا دنیا میں کہیں ایسا ہوتا ہے؟
ہم کیوں فجر سے ہی اپنے معمولات زندگی شروع نہیں کرتے؟
شام شام چھ بجے کیوں ہم کاروباری معاملات ختم نہیں کرتے؟
جلدی گھر جاکے سماجی سرگرمیوں میں بھی شریک ہوں، اہل خانہ کو وقت دیں۔ کیا ایسا کرنے سے ہمیں کسی
نے روکا ہے؟
ہم کیا کریں؟
دنیا کے بیشتر ممالک میں سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں ہفتہ میں پانچ روز کام ہوتا ہے۔ اب تو بعض ممالک
نے ہفتہ میں تین دن چھٹی دے دی ہے اس سے کام میں بہتری آئی ہے اور وسائل (پیٹرول، بجلی اور آفس اخراجات)
کی بھی بچت ہورہی ہے۔
کورونا کے دور میں دنیا کی تمام بڑی کمپنیز نے گھروں سے کام کرنے کا کلچر متعارف کرایا اب بھی کئی
کمپنیز اس پر عملدرآمد کر رہی ہیں۔ پاکستان میں ایسا کیوں ممکن نہیں؟
پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک جیسے پہلے ہی توانائی کے مسائل کا سامنا ہے ایسے میں ہم بہتر حکمت عملی
کے ذریعے وسائل کو محفوظ کرسکتے ہیں اور پیٹرولیم مصنوعات درآمد کرنے پر صرف ہونے والے ڈالرز
بھی بچا سکتے ہیں۔
کفایت شعاری
سابق حکومت نے بھی تیل اور بجلی کی بچت میں کمی کا فارمولا پیش کیا۔ ہفتہ اتوار چھٹی اور جمعہ کو صرف
آدھا دن کام کرنے کی تجویز دی گئی. اسی طرح کاروباری سرگرمیاں بھی جلد شروع کر کے شام میں بند کرنے
کی تجویز بھی دی گئی. حکومت چلی گئی لیکن اس پر عمل نہیں کرایا جاسکا۔ عملدرآمد نہ کرانے کی بنیادی
وجہ سیاستدان کی خودغرضی ہے.
اب اس وقت نگراں حکومت اقتدار میں ہے وہ غیرمقبول فیصلے باآسانی کر سکتی ہے کیونکہ سیاستدان اپنے لوگوں
کی ناراضی مول نہیں لے سکتا اس کے برخلاف نگراں کا کچھ اسٹیک پہ نہیں ہوتا یہ لوگ باآسانی ملک کے وسیع
تر مفاد میں بہتر پالیسیاں نافذ کراسکتے ہیں.
انوار الحق کاکڑ سے توقعات
وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی قیادت میں نگراں حکومت سے عوام نے اپنی توقعات وابستہ کرلی تھیں کہ
وہ آتے ہی مہنگائی کے جن کو قابو کر کے کچھ داد رسی کریں گے لیکن ماضی کے معاہدوں کی وجہ سے
ایسا ممکن نہ ہو سکا.
اس کے باوجود وزیر اعظم اگر اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے دن کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال
یقینی بنانے کے لیے دفاتر کے اوقات کار تبدیل، ہفتہ میں ایک دو دن گھر سے کام کرنے کا رجحان، دکانیں جلد
کھلنے شام جلد بند کرنے، شادی بیاہ کی تقریبات جلد نمٹانے اور پندرہ دن یا مہینے میں ایک دن سڑکوں پہ
پرائیویٹ گاڑیاں لانے پر پابندی لگادیں تو پیٹرول ڈیزل، بجلی اور دیگر اخراجات میں غیرمعمولی بچت کی
جاسکتی ہے۔
ہمیں آسمان سے نیچے آنا پڑے گا. جو ہمارے ہاتھ میں ہے وہ تو کریں اس کے لیے آئی ایف ایف یا دوست ممالک
سے اجازت کی بھی ضرورت نہیں بلکہ وہ بھی اس عمل سے خوش ہوں گے.
نگراں وزیر اعظم کو فوری ہر سطح پر کفایت شعاری کلچر فروغ دینے کا اعلان کرنا ہوگا. ماضی کی حکومتوں
کے محض نعروں کے بجائے اس بار کفایت شعاری سرکاری اور پرائیوٹ، تمام تقریبات میں ہمارے طرز عمل
سے دیکھائی دینا چاہیے اسی صورت میں ضائع ہونے والے وسائل اور مہنگائی پر قابو پایا جاسکے گا۔
نوٹ: ندیم رضا پی ٹی وی سمیت کئی نیوز چینلز کے ہیڈ رہ چکے ہیں