آخر کراچی کا سربراہ کون بنے گا؟

شیئر کریں:

کراچی میں ایک ہفتے پہلے ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے بعد سیاسی صورت حال تیزی کے ساتھ تبدیل بھی
ہو گئی، نتائج کے بعد سیاست کی گتھی مزید الجھ گئی ہے یہ الجھن مزید پیچیدگیوں کو جنم دے رہی ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے بائی کاٹ اور کم ٹرن آوٹ کے پس منظر میں ہونے والی پولنگ کے نتیجے میں پیپلز
پارٹی 236 میں سے 94 یوسیز جیت کر اول نمبر پر ہے لیکن قسمت دیکھیں کہ من پسند بلدیاتی حلقہ بندی اور
سندھ سرکار کی مدد کے باجود جماعت اسلامی سے ہاتھ ملائے بغیر جیالا میئر منتخب نہیں کرواسکتی،
بحیثیت وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی توجہ فی الحال عالمی دنیا کی قیادت سے دوستی کرنے پر مرکوز
ہے اور انھوں نے کراچی میں جیالا میئر لانے کا ٹاسک سعید غنی کو سونپ رکھا ہے۔ سعید غنی دباؤ کا شکار
ہیں. معاملات کو کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد کر حل کرنا چاہتے ہیں.
مقبولیت کے جھولے میں جھولتی جماعت اسلامی 86 یوسیز جیت کر دوسرے نمبر ہے لیکن دوسری طرف ووٹوں
کی دوبارہ گنتی کی درخواستیں دے کر مزید یوسیز جیتنے کی آس میں ہے اور کم و بیش یہی حال 40 یوسیز جیت
کر تیسرے نمبر پر آنے والی تحریک انصاف کا بھی ہے.

حافظ نعیم الرحمن کون ہیں؟

دلچسپ بات ہے کہ پیپلز پارٹی جماعت اسلامی سے ہاتھ ملانا چاہتی ہے اور جماعت اسلامی تحریک انصاف
کے ساتھ مل کر میئر شپ حاصل کرنے کی خواہش مند ہے کہ لیکن تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے
ووٹوں کی دوبارہ گنتی میں ایک دوسرے کی یوسیز پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ دونوں سیاسی جماعتوں کا دعویٰ
ہے کہ فارم گیارہ کے مطابق وہ شہر قائد کا منڈیٹ رکھتی ہیں۔
یہاں الیکشن کمیشن کا کردار پر بھی کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ کیا آر اوز کی جانب سے تمام سیاسی جماعتوں کو
الگ الگ فارم گیارہ دیئے تھے جس کی بناء پر وہ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ نتائج کو مسترد کرتے ہوئے
اپنی اپنی جیت کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
۔کیا سیاسی جماعتیں دوبارہ ہونے والی ووٹنگ کے نتائج کو تسلیم کریں گی؟ بہر کیف 23 جنوری سے 25 جنوری
کو ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے بعد دیکھنا یہ ہوگا کہ کراچی کے میئر یعنی فادر آف دی سٹی کی گتھی سلجھے
گی یا مزید الجھ جائے گی۔
اگر سیاسی تلخیاں بڑھیں تو میئر شپ پر ہونے والے مزاکرات ڈیڈ لاک کا شکار بھی بن سکتے ہیں اور موقع پرست
فائدہ اٹھاتے ہوئے ہارس ٹریڈنگ کے زریعے بولیاں بھی لگوا سکتے ہیں۔
رہی بات ان تمام معاملات سے خود کو الگ تھلگ رکھنے والی ایم کیو ایم کی تو انضام کے بعد اپنے تنظیمی
ڈھانچے کو از سر نو مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے کارکنان سے ٹوٹے ہوئے رابطہ بحال کرنے کی کوشش
کر رہی ہے۔
ساتھ ہی ساتھ یہ سوال بھی کر رہی ہے۔ 15 جنوری کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کس نے کی؟
ٹھپے کس نے لگائے؟ پر تشدد واقعات میں کونسے عناصر ملوٹ تھے؟ کیوں کہ ماضی میں ان تمام معاملات
کی زمہ داری یک زبان ہو کر ایم کیو ایم پر عائد کردی جاتی تھی۔


شیئر کریں: